اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)معاشی ماہرین کے مطابق وفاقی بجٹ 22-2021 میں بالواسطہ ٹیکس بشمول ودہولڈنگ ٹیکس پر ضرورت سے زیادہ انحصار امیر اور غریب کا تضاد بڑھانے کا سبب بنے گا جبکہ کسی ٹھوس ساختی اصلاحات کی عدم موجودگی میں جامع اور پائیدار ترقی محض ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار معاشی ماہرین نے 'وفاقی بجٹ 22-2021 ایک جائزہ' کے عنوان سے ہونے والے ایک ویبینار میں کیا جس کا انعقاد انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز پی ایس، اسلام آباد نے کیا تھا۔ اس ویبینار سے خطاب کرنے والوں میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے سینئیر ریسرچ اکنامسٹ ڈاکٹر محمودخالد، انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینیجمنٹ کے کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈویلپمنٹ کی ڈیِن ڈاکٹر شاہدہ وزارت، پلانننگ کمیشن کے سابقہ چیف اکنامسٹ ڈاکٹر پرویز طاہر اور پیر مہر علی شاہ زرعی بارانی یونیورسٹی میں فیکلٹی آف سوشل سائینسز کے ڈیِن ڈاکٹر عبدالصبور شامل تھے۔ اجلاس کی صدارت آئی پی ایس کے وائس چئیرمین ایمبیسیڈرسید ابرار حسین اور میزبانی آئی پی ایس کے تحقیق کار محمد ولی فاروقی نے کی، جبکہ سابق وفاقی سیکرٹری برائے بجلی و پانی مرزا حامد حسن اور ہاوسنگ اور ہاوسنگ فنانس کے ماہر کنسلٹنٹ ضیغم ایم رضوی بھی گفتگو کا حصّہ رہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ موجودہ معاشی حالات میں بجٹ میں دیئے گئے ترقی و نمو کا طے کردہ 4?8 کا ہدف دیرپا ثابت نہیں ہو گا۔ گروتھ کا یہ ہدف اگرچہ کم وقتی یا شارٹ ٹرم ہو سکتا ہے لیکن پائیدار ترقی کے اہداف، قابل تجدید توانائی ، آب و ہوا کی تبدیلی اور پبلک سیکٹر کی صلاحیت اور استعدادِ کار میں اضافہ پر توجہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ حکومت کے لیے بہت مشکل ثابت ہو گا۔ اسکے علاوہ آبادی کے بڑے حصّے یعنی غریبب اور درمیانے طبقے کے مقابلے میں امیر طبقے کو فائدہ پہچانے کی ایک طریقہ کار کو اسٹاک مارکٹ کی حوصلہ افزاء کا نام بھی دیا گیا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا کہ عام آدمی کو نظر انداز کر کے انڈسٹری کے بڑے لوگوں کو فائدہ پہچانے کے اس طرح کے اقدامات سے خوراک کی افراط زر میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔