’’جس دیس میں جان کے رکھوالے…‘‘

جس دیس میں جان کے رکھوالے خود جان لیں معصوموں کی /جس دیس میں حاکم بہرے ہوںآہیں نہ سنیں مظلوموں کی۔۔۔جان کے رکھوالے ہمارے محافظ جواپنے فرض کوشاید اس لگن اور تندہی سے ادا نہیں کررہے جوان کوکرنا چاہئے، اسی وجہ سے آئے روزپولیس والوں کے خلاف باتیں میڈیا کی بدولت عوام تک پہنچتی رہتی ہیں۔۔۔چلیں ایک لمحے کے لئے فرض کرلیتے ہیں کہ ہماری پولیس بہت اچھی ہے اور اپنے سلوگن‘‘پولیس کا فرض ہے مدد آپ کی‘‘کے مترادف ہے۔۔۔لیکن یہ سب ایک سہانا سپنا ہے اوراس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔عدل و انصاف فقط حشر پہ موقوف نہیں/زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے۔۔۔ہمارے معاشرے میں روزمرہ کی بنیاد پر بہت سی کہانیاں جنم لیتی ہیں اور اس میں سے زیادہ تر کا تعلق عدل اور انصاف کے ساتھ ہوتا ہے۔ہمارے معاشرے کا عالم۔۔’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ جیسا ہے۔۔۔چلتے چلتے یونہی نظر سے ایک خبر گزری اس نے دل دہلا دیااور آنکھ اشکبار ہوگئی۔لاہور میں گلے پرپتنگ کی ڈورپھرنے سے 3 سالہ بچہ خضر حیات جاں بحق ہو گیا،مستی گیٹ کے قریب 3سالہ بچہ خضر حیات اپنے والد اور بہن بھائیوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ گلے پرپتنگ کی ڈور پھرنے سے شدید زخمی ہوگیا۔ہسپتال جاکروہ جانبر نہ ہوسکا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے بچے کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے سی سی پی او سے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی۔حسب سابق رپورٹ مرتب کی جائے گی اورچند لوگوں کی پکڑ دھکڑ ہوگی۔واقعے کے بعد ڈی آئی جی آپریشنز ساجد کیانی نے ایس ایچ او تھانہ مستی گیٹ کو معطل کردیا۔چیف پولیس آفیسر لاہور غلام محمود ڈوگر کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں عوام پولیس سے تعاون کریں ،یہ تعاون سمجھ سے بالاتر ہے ۔ انہیں شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ محافظ جب اس محکمے میں پہلے روزوردی زیب تن کرتا ہے توعوام کی جان ومال کے تحفظ کی قسم کھاتا ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگوں کی وجہ سے یہ شعبہ اتنا بدنام ہے کہ شرفا ماحول تبدیل ہونے کے باوجودپولیس سٹیشن جانے سے گھبراتے ہیں۔ لاہور کے ایک معروف اور مصروف علاقے میں مفت برگر دینے سے انکار پر ریسٹورنٹ کے ملازمین کو ہراساں اور غیر قانونی طور پر گرفتار کرنے کے الزام میں ایس ایچ او سمیت متعدداہلکاروں کو معطل کیاگیا۔
اس قسم کے واقعات کی وجہ سے لوگوں کا اعتبار تک اٹھ گیا ہے اور وہ پولیس سٹیشن نہیں جاتے۔پولیس والے قانون کے محافظ ہوتے ہیں۔ یہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو تحفظ فراہم کریں۔ پولیس کو دیکھ کر عوام کو تحفظ کا احساس ہونا چاہئے مگر پولیس کے منفی رویے کی وجہ سے عوام چوروں اور لٹیروں سے زیادہ پولیس والوں سے ڈرتے ہیں۔ پولیس اگر اپنا رویہ درست کرلے تو ہر شہری پولیس کو احترام سے سلام کرے۔ پولیس اہلکار کسی گاڑی کو چیکنگ کے لئے روک لیں تو ایسا برتائو کرتے ہیں جیسے گاڑی میں کوئی مجرم بیٹھا ہے۔ چیکنگ کرنا پولیس کا حق ہے مگر عوام کی جیبوں پر نظر رکھنا اور لوگوں کی جیبوں سے رقم نکالنا چیکنگ نہیں کرپشن ہے۔قانون کے محافظ خود قانون توڑنے میں مصروف ہیں۔ ایس ایچ اوز خود جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے ہیں۔ ہر غلط کام کھلے عام ہو رہا ہوتا ہے مگر پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔گشت کے نظام کو پس ِ پشت ڈال دیا گیا ہے اور کھلی کچہری کا انعقاد بھی دم توڑ گیا ہے کیا ہی اچھا نظام تھا اگر جاری رہتا اعلیٰ پولیس افسران کبھی سنجیدگی سے غور کریں کہ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کے پاس کبھی کوئی شریف آدمی اپنا مدعا لیکر نہیں جاتا اگر بڑا حوصلہ کر کے چلا بھی جائے تو اسے اپنی عزت کا پاس رکھنا مشکل ہو جاتا ہے کبھی بغیر شناخت ’’امن کا گہوارہ ‘‘میں جا کر تو دیکھیں یہ پولیس افسران ، مشاہدہ تو کریں کہ جرائم میں اضافہ کیوں کر ہو رہا ہے اور اس کے سد ِ باب کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے۔کچھ روز قبل کراچی کا ایک واقعہ ٹی وی پر دکھایاگیا کہ ایک پولیس اہلکار ایک تھانے میں تعیناتی پر خوشی سے ’’نہال ‘‘تھا اوراس کی ویڈیو وائرل ہوگئی تھی۔ تاہم اس اہلکار کاموقف تھا کہ یہ ویڈیو پرانی ہے لیکن جیسے ہی ویڈیو وائرل ہوئی اس کادوبارہ وہاںسے تبادلہ ہوگیا۔معطلی اور تبادلے بھی ہوتے رہتے ہیںلیکن اس شعبے کا عکس اور ماحول تبدیل نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے آزاد ملک کی سرزمین پر ہرروز ایسے کئی ظلم ہوتے ہیں جو کہیں رپورٹ نہیں ہوتے یعنی ان کی کوئی شکایت کہیں درج نہیں کرائی جاتی کیونکہ ان مظلوموں کو یہ علم ہوتا ہے کہ ان کی داد رسی نہیں ہوگی، اس لیے وہ صبر شکر کر کے خاموش ہو جاتے ہیں اور اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں درج کرادیتے ہیں۔عوام کے ساتھ زیادتی کرنیوالوں میں کوئی سرکاری محکمہ بھی کسی دوسرے محکمہ سے پیچھے نہیں ہے۔جہاں جائیں وہاں عوام کو تنگ کرنیوالوں کا ہجوم دکھائی دیتا ہے اور چند منٹوں کا کام دو تین دن کی تاریخ دے کر بڑھا دیا جاتا ہے۔ بغیر کسی لالچ کے کام کرنیوالا کوئی دکھائی نہیں دیتا ۔

ای پیپر دی نیشن