ہمارے سیاستدانوں نے قوم کو ذہنی طور پر یرغمال بنا رکھا ہے۔ ان کے اعصاب کو مفلوج کر کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں زیادہ تر لوگ سیاسی معاملات سے لا تعلق ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اپنی من مانیاں کرتے پھرتے ہیں‘ انھیں پتہ ہے کہ ہم سیاہ کریں سفید کریں ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں اگر انھیں پتہ ہو کہ ہماری کارکردگی کا حساب ہو گا۔
ہمارے ہر ایکٹ پر عوام ہماری جواب طلبی کریں گے تو یقین جانیں کہ ان میں شائستگی بھی آجائیگی اور رنگ بازی بھی ختم ہو جائے گی لیکن یہاں جیسی روحیں ویسے فرشتے والا معاملہ ہے۔ اگر لیڈر صحیح نہیں تو عوام کون سے صحیح ہیں میں نے ایک دن ٹی وی پروگرام میں ساتھ بیٹھے رکن پارلیمنٹ جو کہ بہت زیادہ اونچا بولتے ہیں اور مخالفین کو نہ صرف بولنے نہیں دیتے بلکہ ہروقت جارحانہ انداز میں لڑائی جھگڑے کے لیے تیار رہتے ہیں ‘ ان سے کہا کہ آج آپ نے بڑی مدلل گفتگو کی ہے آپ ایسی گفتگو کیا کریں۔ ان کا جواب تھا میرے حلقے کے لوگ کہتے ہیں مزہ نہیں آیا ۔وہ بھڑک کو پسند کرتے ہیں لہذا مجھے ان کو بھی خوش رکھنا ہوتا ہے جس معاشرے میں ووٹر سپورٹر اپنے نمائندوں سے سلطان راہی جیسے کردار کی توقع رکھتے ہوں وہاں کی اسمبلیوں سے ایسی ہی توقع کی جاسکتی ہے۔
جیسے آج کل پاکستان کے پارلیمان میں ایکشن سے بھرپور فلمیں چل رہی ہیں پاکستان کی قومی اسمبلی میں جو مناظر دیکھنے کو ملے۔ اس پر ذی شعور تو بڑی کوفت میں ہیں لیکن بہت ساروں نے اس ماحول کو انجوائے کیا بعض لوگوں سے تو یہ بھی سننے کو ملا کہ ہمارے ممبر نے تن کے رکھ دیا ہے ہمارا چوہدری ایسے گرج رہا تھا جیسے شیر ہو ہمارے ملک نے سب کو آگے لگایا ہوا تھا۔
افسوس صد افسوس جنھوں نے جواب طلبی کرنا تھی وہ داد دینے لگیں تو رہنماوں نے تو کہنا ہے گالی ہماری ثقافت ہے ۔
اگر عوام نے گالی گلوچ کرنے والوں کو حلقوں میں داخل نہ ہونے دیا ہوتا سول سوسائٹی نے اس پر احتجاج کیا ہوتا تو شاید آئندہ سے کسی کو ایسا تماشہ لگانے کی جرأت نہ ہوتی لیکن جتنی دھینگا مشتی کرنے والوں کو پذیرائی ملی ہے وہ کہتے ہیں نمایاں ہونے کے لیے یہ تو سب سے آسان طریقہ ہے۔ اسمبلی میں جو کتابیں انھیں پڑھنے کے لیے دی گئی تھیں ان کو انھوں نے ہتھیار بنا لیا۔ ان کتابوں کی تیاری اور پرنٹنگ پر غریب عوام کو پیسہ خرچ ہوا ہے اور ان لوگوں کو وہ کتابیں پڑھ کر تیاری کرکے اچھی تجاویز دینے کے لیے دی گئی تھیں لیکن یقین جانیں آج تو ان کتابوں سے مار کا کام لے لیا گیا ورنہ یہ اسی طرح بند ردی کی نذر کر دی جاتی ہیں۔
ہمارے 70 فیصد ارکان اسمبلی گونگے بہرے ہیں جو اسمبلی میں صرف تماشہ کرنے یا تماشہ دیکھنے جاتے ہیں۔ اگر ان کے ووٹر انھیں الیکشن میں پوچھیں کہ آپ نے قانون سازی میں کیا کردار ادا کیا آپ نے قومی ایشوز پر ہماری کیا نمائندگی کی اور چونکہ آپ ہماری ترجمانی کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لیے ہم آپ کو ووٹ نہیں دیتے اگر یہ ایسا کر گزریں تو ہمارے سارے نمائندے ٹھیک ہو جائیں۔ یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے یہاں بااثر لوگوں نے حلقوں پر قبضے کر رکھے ہیں۔ انھوں نے چند سو بدمعاش گنے چنے نمبردار چوہدری اور چیلے چماٹے اکھٹے کر رکھے ہیں ان کی ہر جائز ناجائز خواہش پوری کر کے پورے حلقے کو یرغمال بنا رکھا ہے نہ جانے کب عوام کو شعور آئے گا کب عوام ان گرگوں کے چنگل سے نکلیں گے کب ہمیں بھی انسانی تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع ملے گا۔
بات قومی اسمبلی میں ہنگامے سے شروع ہوئی تھی اور کدھر کو جانکلی ہمارے ہاں کافی عرصہ سے بجٹ کا ماحول بہت عجیب ہوتا ہے ہر سال اپوزیشن کی جانب سے شور مچانے کی ریہرسل ہوتی ہے لیکن اس بار کچھ زیادہ اس لیے ہو گیا کہ اپوزیشن نے بجٹ سے قبل ہی منصوبہ بندی شروع کر دی کہ اس بار بجٹ پاس نہیں ہونے دینا حکومت نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی ٹھان لی اپوزیشن تصور نہیں کر سکتی تھی کہ ایسا جواب ملے گا حکومت نے اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران وہی کچھ کیا جو اپوزیشن نے وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران کیا تھا۔ وزیر خزانہ نے تو جیسے تیسے اپنی تقریر مکمل کر لی لیکن اپوزیشن لیڈر کو حکومت نے تقریر مکمل نہ کرنے دی اسمبلی کا ماحول اس حد تک کشیدہ ہو گیا کہ اجلاس ملتوی کرنا پڑا ۔
ہمیشہ حکومت اپوزیشن کے ناز نخرے اٹھاتی ہے لیکن پہلی بار کام الٹ ہو گیا اپوزیشن واک آوٹ کرنے کی بجائے اسمبلی میں تقریر کرنا چاہتی تھی اور حکومت کی کوشش تھی کہ یہ بھاگ جائیں ہر دو صورتوں میں حکومت کامیاب ٹھہری ‘اب حکومت کا نفسیاتی طور پر پلڑا بھاری ہو گیا ہے۔ ہمارے پارلیمانی رپورٹروں کو چاہیے کہ وہ پتہ کریں کن نکات پر اسمبلی کو چلانے پر اتفاق ہوا ہے۔ وہ اپوزیشن جو استعفے دے کر اسمبلی سے باہر جانا چاہتی تھی اسمبلی کو چلنے نہیں دینا چاہتی تھی آج منتیں ترلے کر کے اسمبلی کا حصہ رہنا چاہتے ہیں۔
اپوزیشن کو چاہیے تھا کہ وہ اسمبلی کا ماحول دیکھ کر واک آوٹ کرجاتے اور حکومت کے منانے پر واپس آتے لیکن اپوزیشن کو یہ خدشہ تھا کہ اس بار حکومت انھیں نہیں منائے گی بجٹ پر سب سے زیادہ خدشہ پنجاب اسمبلی میں حالات خراب ہونے کا تھا لیکن سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے کمال دانشمندی کے ساتھ معاملات کو کنٹرول میں رکھا اور حالات کو بگڑنے نہ دیا اب وفاق اور پنجاب کے بجٹ بھی پاس ہو جائیں گے اور حکومت بھی وقت پورا کرے گی۔ اپوزیشن آخری وقت میں کمزور اور حکومت مضبوط ہوتی جا رہی ہے سب سے خوفناک مناظر بلوچستان اسمبلی کے ہیں جہاں بجٹ پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے وزیر اعلی کو بجٹ کے موقع پر اسمبلی میں جانے سے روکا گیا اسمبلی گیٹ کو تالے لگا دیے گئے ۔
وزیر اعلی کو گملے مارے ان پر جوتے پھینکے گئے ایسی صورتحال پیدا کرنے میں حکومت میں شامل لوگوں کا بھی ہاتھ تھا جو وزیر اعلی کی تبدیلی چاہتے ہیں وہاں کسی بڑی قوت کی مداخلت کے بغیر حالات کنٹرول ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے
٭…٭…٭