اسلامو فوبیا: سنگین عالمی مسئلہ

Jun 20, 2021

وزیر اعظم عمران خان اقوام عالم پر مسلسل زور دیتے چلے آر ہے ہیں کہ اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ ایک حالیہ انٹرویو میں وزیراعظم نے اسلامو فوبیا کے پھیلائو میں انٹرنیٹ پر موجود مواد کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ نفرت انگیز مواد اور انتہا پسندوں کو روکنے کیلئے عالمی برادری کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور انٹرنیٹ پر ایسی معلومات اور مواد بڑی مقدار میں موجود ہے ،جو دنیا کو ایک نئی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔ پاکستان میں مختلف مسالک اور نظریات کے پیروکار کروڑوںکی تعداد میں موجود ہیں۔ پاکستان ایسے بھیانک دور کو بھگت چکا ہے جب فرقہ وارانہ نفرت اور تشدد کو ہوا دینے والا لٹریچر آسانی سے شائع ہوتا اور ایک مخصوص نیٹ ورک کے ذریعے ملک بھر میں پھیلا دیا جاتاتھا۔ اس لٹریچر نے ایسی فکری تبدیلی پیدا کی کہ مسلمان بنیادی تعلیمات اور احکامات کو چھوڑ کر فروعات پر ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے رہے۔ سکیورٹی اداروں‘ پولیس‘ علماء کرام اور میڈیا نے مل کر اس ذہنیت کی بھرپور حوصلہ شکنی کی۔اسکے باوجود مذہب کے نام پر نفرت اور اشتعال انگیزی کو ابھارنے والے عناصر مکمل ختم تو نہیں ہو سکے تاہم یہ طاقت کے اعتبار سے کافی حد تک کمزور ضرور ہوئے ہیں ۔یہ پس منظر ہمیں خبردار کرنے کیلئے کافی ہے کہ دنیا بھر میں اُمہ اور اسلام کے متعلق بے سروپا باتوں کودھڑلے سے پھیلانے کا نتیجہ عالمی سطح پر خون ریزی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔رواں ماہ کینیڈا میں پاکستانی نژاد مسلم خاندان سڑک پر چہل قدمی کر رہا تھا کہ ایک سفید فام ٹرک ڈرائیور نے ان پر گاڑی چڑھا دی۔ خاندان کا سربراہ‘اس کی والدہ‘ بیٹیاں اور بیٹا اس ٹرک کی زد میں آ گئے۔ آٹھ سالہ بیٹا زخمی ہوا ،باقی تمام اہل خانہ جاں بحق ہو گئے۔ ٹرک ڈرائیور نے گرفتار ی کے بعد اعتراف کیا کہ اس نے جان بوجھ کر مسلم خاندان کو کچلا کیونکہ وہ مسلمانوں کو زندہ رہنے کے قابل نہیں سمجھتا۔ کینیڈا میں بڑی تعداد میں عیسائی‘ مسلمان‘ سکھ‘ ہندو اور دیگر اقوام آباد ہیں۔ کینیڈا کا معاشرہ ایک وسیع سوچ اور رواداری کے رویے پر استوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں مسلمانوں کو قابل نفرت قرار دیکر ان کو قتل کرنے کی سوچ کے خلاف عوامی اور حکومتی سطح پر بھر پُور ردعمل سامنے آیا ہے ۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے تسلیم کیا ہے کہ کینیڈا میں اسلامو فوبیا موجود ہے، جسے ختم کرنے کی اشدضرورت ہے۔ اس سلسلے میں کینیڈین وزیر اعظم کی وزیر اعظم عمران خان سے بات بھی ہوئی، جس میں اسلامو فوبیا کے خطرے کے حوالے سے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال بھی ہوا۔ وزیراعظم پاکستان کا زیر تبصرہ بیان اسی واقعہ کے تناظر میں ہے۔ کینیڈا کے واقعہ سے قبل دو برس پرانے اس سانحہ کی یاد آج بھی تازہ ہے جب پُرامن سمجھے جانے والے ملک نیوزی لینڈ میں مسلم دشمنی میں اندھے شخص نے ایک مسجد پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں 49 نمازی شہید ہوئے، جن میں کئی پاکستانی شہری بھی تھے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسنڈا آرڈن نے اس واقعہ کو اسلامو فوبیا تسلیم کیا اور شہید و زخمی ہونیوالے مسلمانوں کے خاندانوں کے ساتھ بھر پُور اظہار یک جہتی کیا۔ جسنڈا آرڈن کے اس منصفانہ اور ہمدردانہ طرز عمل کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔ اِس وقت اسلامو فوبیا کو ہوا دینے والے دو مراکز ہیں۔ پہلا مرکز امریکہ اور اسکے سکیورٹی ادارے ہیں ،جو سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد اسلام کو اپنے اقتصادی و سماجی نظام کیلئے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے، دنیا بھر کے مسلم ممالک کو مسلح تنازعات میں پھنسانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔خلیج‘ مشرق وسطیٰ‘ افغانستان‘ لیبیا‘ افریقہ ‘ مصر اور پاکستان تک اس پالیسی کی زد میں ہیں۔ امریکہ مسلم ممالک میں اپنی فوجی کارروائیوں کو قانونی اور درست قرار دینے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت خود اشتعال انگیز واقعات کی بنیاد رکھتا ہے ۔امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک میں قرآن پاک کی توہین اور رسول کریمﷺ کے خاکوں کی اشاعت کے واقعات تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں۔ مسلمان جب ایسے واقعات پر اپنا فطری ردعمل ظاہر کرتے ہیں تو انہیں عدم رواداری اور آزادی اظہار کا دشمن قرار دیکر ذرائع ابلاغ پر دکھایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کوجھگڑالو ‘ مغربی اقدار کا دشمن ، غیر مہذب اور جہادی بنا کر ان کا تشخص مسخ کیا جاتا ہے۔ اس سے مغرب کے لوگ مسلمانوں کو اپنے اور اپنے سماج کیلئے خطرہ تصور کرنے لگے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ مسلمان ان پر غالب آ کر انہیں نیست ونابود کر دینگے۔ بھارت وہ دوسرا مرکز ہے جہاں سرکاری سطح پر مسلم دشمن پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ بھارت میں انتہا پسند ہندو مسلمانوں کو راہ چلتے موت کی وادی میں اتار دیتے ہیں‘ انکی املاک پر قبضہ کر لیا جاتا ہے‘ کاروبار تباہ کر دیا جاتا ہے۔مسلم دشمنی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھارت کی جانب سے بھگوان کا اس لئے درجہ دے دیاگیا کہ وہ مسلم اقدار کا مخالف ہے۔ اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر گولہ باری کرتا ہے۔ سینکڑوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں لیکن بھارت کی حکمران جماعت کے پیروکار اسرائیل کی شرم ناک انداز میں حمایت کرتے ہیں۔ اس افسوس ناک صُورت حال کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ اگر پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کشمیر پر بھارتی جبرو تشدد پر بات کریں تو بھارتی دبائو پر سماجی رابطے کی ویب سائٹس ان صارفین کو بلاک کر دیتی ہیں۔ بھارت میں انٹرنیٹ پر مسلمانوں کی کردار کشی کی کھُلی اجازت ہے مگر انہیں جواب دینے اور دلیل سے بات کرنے کا حق حاصل نہیں یوں سماجی رابطے کی سائٹس عملی طور پر اس سائبر جنگ کا حصہ بن چکی ہیں جو مسلمانوں کے خلاف بھر پُور انداز میں لڑی جا رہی ہے۔ اس صورتحال میں وزیر اعظم عمران خان کی ان تجاویز پر عالمی برادری کو ضرور توجہ دینی چاہیے جن میں انہوں نے انٹرنیٹ اور سماجی ویب سائیٹوں کیلئے عالمی سطح پر قابل قبول قانون سازی کرنے اور مجرموں کیخلاف بلا امتیاز کارروائی یقینی بنانے کا مشورہ دیا ہے۔عالمی برادری اسلامو فوبیا کے خلاف بند باندھنے کیلئے وزیر اعظم عمران خان کی تجاویز پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں قیام امن کو یقینی بنا سکتی ہے ۔ اس پس منظر میں امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کو اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لانی چاہئیں تاکہ مذہب کے نام پر عالمی جنگ کا خطرہ ٹل سکے۔

مزیدخبریں