15 جون کو اور اُس کے بعد بھی قومی اسمبلی میں ’’ پاکستان تحریک انصاف ‘‘ ، اُس کی اتحادی جماعتوں اور حزبِ اختلاف کی مختلف جماعتوں کے ارکان میں ایک بار پھر ’’گالم ، گلوچ ‘‘ ہُوئی۔ معزز قارئین ! یہ کوئی نئی بات نہیں ہے؟۔ اِس سے پہلے بھی کئی ادوار میں مخالف جماعتوں کے ارکان کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف اِس فن ( ہُنر )کا مظاہرہ ہو چکا ہے ۔
یہ الگ بات ہے کہ ’’ انگریزی میں ’’ فن ‘‘ کے معنی ہیں (Art, Skill, Craft, Technique) کیوں نہ مَیں آپ کو 5 نومبر 2018ء کی یاد دلائوں جب’’ پاکستان تحریک انصاف ‘‘ اور ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ کے منتخب ارکان میں ’’ گالی گلوچ‘‘ کے فن کا تبادلہ ہُوا اور پھر قومی اخبارات میں اِس طرح کی خبریں شائع ہُوئیں کہ ’’دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دیں ، گالم گلوچ کی ۔ "Mutual Abuse"اور "Exchange of Abusive Language" کو سُرخیوں میں شامل کِیا!‘‘۔
پھر کیا ہُوا؟دونوں طرف کے فنکاروں (Artists) نے ایک دوسرے کو معاف کردِیا تھا یا اُن میں ’’مُک مُکا ‘‘ہوگیا تھا۔ اِس بار بھی یہی کچھ ہُوا۔ عظیم اُلشان نام والے سپیکر قومی اسمبلی جنابِ اسد قیصر نے قومی اسمبلی میں "Unparliamentary Language" (غیرپارلیمانی زبان ، فحش کلامی اور بد زبانی ) کرنے پر اُنہیں ایوان سے باہر رہنے کی سزا دے دِی لیکن پھر معاف کردِیا۔
’’ گالی دینا پنجاب کا کلچر ؟‘‘
جب کبھی ’’پارلیمنٹ‘‘ (سینٹ ، قومی اسمبلی ) یا صوبائی اسمبلیوں کے ارکان ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں تو اُن کے حلقے کے عوام کو اُن سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کیوں کہ یہ اُن کے منتخب ارکان کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے یا چیئرمین سینٹ یا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز حضرات کا لیکن مَیں یقین سے کہتا ہُوں کہ:
’’ آج تک پارلیمنٹ یا کسی صوبائی اسمبلی میں ’’ گالم ، گلوچ‘‘ کرنے والے رُکن نے یہ فتویٰ نہیں دِیا کہ ’’ گالی دینا ، پنجاب کا "culture" ہے؟‘‘ لیکن،"Wikipedia" کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک رُکن قومی اسمبلی ’’ شیخ روہیل اصغر ‘‘ انگریزی میں "Shaikh Rohale Asghar" نے قومی اسمبلی کے ایوان میں یہ اعلان کِیا کہ’’ گالی دینا پنجاب کا کلچر ہے!‘‘۔
انگریزی لفظ "Culture" کے معنی ہیں ۔ (ذہنی و اخلاقی تہذیب و تربیت سے متعلق ذہنی و فنی مشاغل کے ذریعے تہذیبی و ثقافتی عمل ) حیرت ہے کہ ’’ اُردو کے قومی اخبارات میں ’’ شیخ روہیل اصغر‘‘ کا نام ’’ شیخ روحیل اصغر‘‘ لکھا جاتا ہے ؟‘‘ لیکن شیخ صاحب نے تو "Wikipedia" میں ’’ روحیل‘‘ کے بجائے ’’روہیل‘‘ لکھا ہے ؟
معزز قارئین ! ہندی زبان میں ’’روہیل‘‘ یا ’’ روہیلہ‘‘ کسی زمانے میں یوسفزئی پٹھانوں کے ایک قبیلے کو کہتے تھے اور ’’ کھنڈ ‘‘ کے معنی ہیں ’’زمین کا ایک ٹکڑا، حصہ، گائوں یا ملک ‘‘ "Wikipedia" کے مطابق یوسفزئی سردار حافظ رحمت خان نے ’’ ہندو مراٹھوں / مرہٹوں ‘‘ سے عداوت کی بنا پر شجاع اُلدّولہ نواب اُودھ کے ساتھ 1744ء میں معاہدہ کر لِیا ، پھر ’’ روہیل یا روہیلہ ‘‘ قوم کے نام سے ’’روہیل کھنڈ ‘‘ کی سلطنت قائم ہُوئی تھی!‘‘ ۔
سوال یہ ہے کہ ’’ گالی دینا پنجاب کا کلچر ‘‘ ہونے کا اعلان کرنے والے شیخ روہیل اصغر نے قومی اخبارات کو اپنا نام درست لکھنے کی درخواست کیوں نہیں کی ؟‘‘۔
’’ پنجابی گالیوں کی زبان !‘‘
مَیں سوچ رہا ہُوں کہ ’’ کیا شیخ روہیل احمد کا ’’کسی دَور میں یا پرانے جنم میں‘‘ (1972ئ۔ 1987ء ) جماعت اسلامی کے تیسرے امیر میاں طفیل محمد (مرحوم )سے تو نہیں رہا؟ اُن دِنوں میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان تھے جب 20 اپریل 1992ء کو جماعت اسلامی کے ریٹائرڈ امیر میاں طفیل محمد نے اُردو اور انگریزی کے دو روزناموں کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ مَیں جالندھر میں پیدا ہُوا تھا۔
میرے والدین پنجابی تھے اور مَیں بھی زبان کے لحاظ سے پنجابی ہُوں ۔ یعنی۔ میری مادری زبان پنجابی ہے لیکن پنجابی زبان کا کوئی مستقبل نہیں ہونا چاہیے ، کیوں کہ پنجابی گالیوں کی زبان ہے ۔ پنجابی میں کوئی جتنی بڑی گالی دے اُتنا ہی بڑا وہ ادیب ہوتا ہے !‘‘ ۔
معزز قارئین ! میاں طفیل محمد نے جب اپنی (اور میری ) مادری زبان پنجابی کو ’’گالیوں کی زبان‘‘ کہا تو 23 اپریل 1992ء کو مَیں نے اپنے کالم میں اُنہیں آئینہ دِکھایا لیکن اُن کی وہ کیفیت نہیں تھی کہ…
’’ آئینہ اُن کو دِکھایا تو بُرا مان گئے ! ‘‘
…O…
’’تفہیم اُلقرآن کا پنجابی ترجمہ !‘‘
مَیں نے لکھا کہ ’’ مولانا مودودی (مرحوم) حیدر آباد دکن کے رہنے والے دکنی اُردو میں بے شمار الفاظ پنجابی زبان کے شامل ہیں ۔ پھر مولانا (مرحوم) پنجاب میں آ بسے اور بہت سے پنجابی جماعت ِ اسلامی میں شامل ہوگئے ، لیکن مولانا صاحب نے پنجابی زبان کو ’’ گالیوں کی زبان‘‘ قرار نہیں دِیا!‘‘۔
بھارت میں جماعت ِ اسلامی کے زیر اہتمام ’’گورو مُکھی‘‘ (پنجابی ) میں تفہیم اُلقرآن کا ترجمہ الگ الگ پاروں میں شائع کرایا گیا حالانکہ میاں طفیل محمد کے بقول پنجابی گالیوں کی زبان ہے !‘‘ ۔
’’ بابا فرید شکرگنج اور دوسرے اولیاء ؟‘‘
مَیں نے اپنے کالم میں لکھا کہ ’’ چشتیہ سلسلہ کے ولی اور پنجابی کے پہلے شاعر حضرت فرید اُلدّین مسعود بابا شکر گنج اور اُن کے بعد کئی اولیاء کرام اور صوفی عظّام نے (پنجابی میں )اپنی شاعری کے ذریعے دُنیا بھر میں تبلیغ اسلام کی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ’’میاں طفیل محمد صاحب نے اُن کا کلام کیوں نہیں پڑھا؟۔
شاید اُنہوں نے اُردو کے ’’ دیوانِ چرکیں‘‘ کی طرح پنجابی میں ہی اُسی طرح کی کتابیں پڑھی ہوں گی کہ’’ اُنہوں نے پنجابی زبان پر ’’ گالیوں کی زبان‘‘ کا فتویٰ داغ دِیا۔
’’ ہر زبان میں گالیاں ! ‘‘
مَیں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ دُنیا کی ہر زبان کی ’’لُغات ‘‘ ( Dictionaries)میں گالیاں درج ہیں ۔ برطانیہ اور امریکہ میں بھی گالیوں کی ڈکشنری (Slang Dictionary) شائع ہُوئی ہے۔ یعنی ’’گالیوں کے شائقین کے لئے‘‘…
’’ جب ذرا گردن جُھکائی ، دیکھ لی !‘‘
…O…
’’ نظریۂ جہالت ! ‘‘
معزز قارئین ! اِنسان اشرف اُلمخلوقات ہے ۔ اِس لحاظ سے ہر زبان اشرف ہے لیکن اگر بالائی طبقے اور پڑھے لکھے لوگ پارلیمنٹ میں گالیوں کا تبادلہ کرتے ہیں او ر صرف گالی دینا پنجاب کا کلچر کہتے ہیں تو مَیں تو یہی کہوں گا کہ ’’ کیا قومی اسمبلی میں بھی ’’ نظریۂ جہالت‘‘ (Ideology of Ignorance) فروغ پا رہا ہے ؟۔ ( باقی پھر کبھی سہی؟)۔
٭…٭…٭