تلخیاں ختم نہ کیں تو الیکشن میں ٹرمپ جوبائیڈن والا حال ہوگا شیخ رشید

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) قومی اسمبلی بجٹ پر بحث کے دوران اپوزیشن ارکان نے حکومت اور بجٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ بجٹ میں عوام دوست نہیں بلکہ سرمایہ  دار طبقہ کو نوازا گیا ہے، خفیہ ٹیکس لگائے گئے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا، ایک دوسرے پر بجٹ کتابیں ماریں گئیں جو ہر رکن پارلیمنٹ کے لیے باعث شرم ہے، حکومت نے آئی ایم ایف سے بھاری قرض لیا ، جبکہ حکومتی ارکان نے کہا کہ 70 سال کی ناقص کارکردگی کسی کو یاد نہیں تین سالہ کارکردگی پر تنقید کی جارہی ہے عمران خان کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس رکھتے ہیں، کشمیر ایشو کو دنیا کے سامنے اجاگرکیا ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ ایوان میں گزشتہ چند دنوں میں ہونے والے واقعات تشویشناک ہیں حکومتی ارکان اور وزراء کی گالی گلوچ اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتا ہوں ان کا کہنا تھا کی حکومت کا فارن فنڈنگ کیس رکا ہوا ہے حکومت اسے ختم کرنے کی پرجوش کوشش کر رہی ہے اور مزید الیکشن ریفارمز لا رہے ہیں جن سے انہیں دھاندلی کرنے میں آسانی ہوگی۔ وزیراعظم  وزیروں اور اتحادیوں کی کرپشن کے خلاف اقدام نہیں کرتے انہیں ریلیف فراہم کرتے ہیں۔ جہانگیر ترین کو این آر او دیا گیا۔ 175000روپے کا ہر بچہ مقروض ہے لیکن وزیراعظم کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں۔ صرف احتساب اپوزیشن کے لئے ہے۔ نیاز احمد نے عبدالقادر پٹیل نے جذباتی تقریر کی کہ گورنمنٹ کی طرف سے زیادتی ہوئی ہے لیکن اپوزیشن کے ایک لیڈر نے سپیکر کو گالیاں نکالی اپوزیشن کے ارکان کے غیر پارلیمانی رویہ اختیار کیا لیکن یہ اس پر نہیں بولتے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ایوان پارلیمانی طریقے سے چلے۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ اپنی طرف کے لوگوں کو بھی سمجھائیں۔ عمران خان کی نیک نیتی کی وجہ سے آج قوم اپنے پائوں پر کھڑی ہے۔ خرم دستگیر نے کہا کہ آج کا دن ان لوگوں کے نام جو 80 روپے کلو آٹا نہیں خرید سکتے، بیوائیں اور پیشنرز کے نام جن کی پنشن ختم ہی کر دی گئی ہیں۔ تجربہ عمرانی آج فیل ہو چکا ہے۔ یہ حکومت تین دیواروں پر کھڑی ہے جھوٹ پر فحش ازم پر اور پروپیگنڈے پر ہے۔ شہریار آفریدی نے کہا کہ کسی بھی حکومت نے  ناموس رسالت ﷺکیلئے آواز نہیں اٹھائی  لیکن آج دنیا میں اسلاموفوبیا کے حوالے سے عمران  نے آواز اٹھائی۔ اپوزیشن لیڈران ارکان زمینوں پر قبضے کرتے ہیں ہم نے  اسلام آباد سے 33000 کنال زمین قبضہ مافیا سے واگزار کروائی۔ ہم نے زمینوں پر قبضے کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ انہوں نے کلبھوشن کی بات کی ان کی اپنی ہمت نہیں ہوئی کہ اس کے خلاف ایف آئی آر تک کاٹ لیں بلکہ آپ تو اس کی ہمت میں باتیں کرتے تھے۔ سید محبوب شاہ نے بلوچستان صوبائی اسمبلی میں ہلڑ بازی اور پولیس کی طرف سے اپوزیشن ارکان  کو زخمی کرنے کے واقعے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے ساتھ وفاقی بجٹ میں زیادتی کی جاتی ہے غریب عوام کے ساتھ ٹیکس کے نام پر زیادتی کی جارہی ہے بجلی کے نام پر عوام کو لوٹا جا رہا ہے مساجد میں ٹیلی ویژن کے ٹیکس لئے جا رہے ہیں۔ محسن داوڑ نے کہا کہ ہمارے مسائل  ایک حکومت نے نہیں بگاڑے 74 سالوں میں آہستہ آہستہ صورتحال بگڑی ہے۔ نواب زادہ افتخار احمد خان نے کہا کہ ایک ہفتے سے بجٹ پر بحث جاری ہے جی ڈی پی گروتھ پر بات ہورہی عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں عوام کو دال چینی چاول گھی بھلی گیس پٹرول بے روزگاری سے غرض ہے 8487 ارب میں سے صحت تعلیم کا بجٹ کم رکھا گیا، شاہین ناز نے بھٹو کے نعرے روٹی کپڑا مکان اور ان کی تقاریر کو نہیں بھول سکتے مگر اب اس پر عمل نہیں ہورہا معذورں کا جاب کوٹہ دو سے پانچ فیصد کیا جائے، فاٹا کی محرومیاں پہلے کیوں نہ ختم کی گئیں؟۔ ساجد مہدی نے کہا کہ زراعت ریڑھ کی ہڈی ریاست  یوٹرن کا مطلب جھوٹ ہے جس کی گنجائش نہیں بنتی، صائمہ ندیم نے کہا وہ پی ٹی آئی سے ہیں حکومت نے اچھا بجٹ پیش کیا، سید محمود شاہ نے کہا عوام کو مہنگائی اور عام چیزوں سے غرض نے جی ڈی پی کے بڑھنے کم ہونے سے نہیں ان کا مسئلہ دو وقت کی روٹی ہے۔ خورشید احمد جونیجو نے کہا کہ بجٹ بحث ہے مگر میں نے تمام سیاسی جماعتوں کے ادوار کو دیکھا مگر جس طرح کتابیں اچھالی گئیں وہ قابل مذمت ہے۔ میر غلام علی تال پور نے انگریزی میں خطاب کیا انہوں نے اسلام آباد کی ایک سڑک کو ’’احمد شاہ  مسعود‘‘ سے منسوب کرنے کی مذمت کی۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید  نے کہاقومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کو تعلیم یافتہ طبقے نے اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا لیکن خدا کا شکر کہ اب بہتری کی فضا قائم ہے، میں ایک سیاسی ورکر ہوں اور حقیقت یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پاس تو سارے ہی جاتے ہیں، سب ہی لوگ جاتے ہیں کیونکہ یہ مجبوری ہے جس پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ عمران خان کی قیادت میں اوورسیز پاکستانیوں نے 9 ارب ڈالر ترسیلات زر بھیجی اور اگر ایسا نہ ہوتا ہمیں پڑوسی ممالک میں کشکول لے کر جانا پڑتا سیاسی جماعتوں کو آنیوالے وقتوں کی سیاسی صورتحال کی تیاری کرنی چاہیے، وقت آگیا ہے سیاسی جماعتوں کو تلخیوں کو ختم کرنا ہوگا، اگر ہم تلخیاں ختم نہ کی تو الیکشن میں ٹرمپ اور جوبائیڈن والا حال ہوگا، افغانستان کی نئی سیاسی صورتحال کیلئے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن