افغانستان میں قیامِ امن پاکستان کی حمایت سے مشروط ہے

افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کی عبوری حکومت بنے نو مہینے سے زائد عرصہ گزر چکا ہے تاہم اب تک کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر اس حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ ہر ملک اس سلسلے میں اپنے اپنے جواز پیش کررہا ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر جن معاملات پر اتفاق پایا جارہا ہے وہ یہ ہیں کہ افغان طالبان جب تک انسانی حقوق کی ضمانت نہیں دیتے تب تک ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالے سے حقوقِ نسواں اور اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت فراہم کرنے پر بھی زور دیا جارہا ہے۔ حال ہی میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے بھی اس بارے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس افغانستان کے طالبان حکام کو تسلیم کرنے کا تو نہیں سوچ رہا لیکن اس ملک میں پیدا ہونے والے انسانی مسائل کئی ممالک کو کابل کے نئے حکمرانوں کے ساتھ رابطے برقرار رکھنے پر مجبور کررہے ہیں۔
اس صورتحال میں پاکستان کا کردار خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ بھارت کے سوا کوئی بھی ملک افغانستان کے مسئلے پر پاکستان کو شامل کیے بغیر بات آگے بڑھانے پر آمادہ نہیں۔ گزشتہ سال اگست کے مہینے میں جب بھارت کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی ماہانہ صدارت ملی تو اس موقع پر بھارت نے پاکستان کے خلاف مخاصمت اور بدطینتی کا اظہار کرتے ہوئے اسے افغانستان کے مسئلے پر ہونے والے بین الاقوامی سطح کے مذاکرات سے الگ رکھنے کی کوشش کی۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اس حوالے سے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہم بھارت کی صدارت کے دوران کسی قسم کی غیر جانبداری کی توقع نہیں رکھتے۔ اس واقعے کے علاوہ کوئی ایسا موقع نہیں جب بین الاقوامی سطح پر افغانستان کے حوالے سے ہونے والے کسی اجلاس یا مذاکراتی عمل میں پاکستان کو شریک نہ کیا گیا ہو۔ خود امریکی انتظامیہ کے لوگ بھی کئی بار اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا مستقل حل پاکستان کی مدد کے بغیر تلاش نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان کو گزشتہ تقریباً ڈیڑھ دہائی کے دوران افغانستان کی طرف سے اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ افغان سرزمین کو بھارت اور کچھ ممالک پاکستان کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس کام کے لیے ان ممالک نے مختلف عناصر کو اپنی پراکسی کے طور پر استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے وقت جس ملک کو سب سے زیادہ تکلیف ہورہی تھی وہ بھارت تھا کیونکہ اتحادی افواج کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد بھارت کے وہاں اپنے اڈے قائم رکھنا اور ان اڈوں کو پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنا ممکن نہیں تھا۔ یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ افغان طالبان کے اس اعلان کے باوجود کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے پاکستان میں کارروائیوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع کردیا اور ان کارروائیوں کے بعد ان کو چھپنے کے لیے جو ٹھکانے ملتے تھے وہ سرحد پار تھے۔ پاکستان نے اس مسئلے کو لے کرکئی بار طالبان کی افغان حکومت سے رابطہ کر کے انھیں صورتحال سے آگاہ کیا تاہم اس حوالے سے بیانات سے آگے بڑھ کر مثبت پیشرفت کم ہی دیکھنے میں آئی۔
خیر، اب پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے اور اس سلسلے میں ٹی ٹی پی نے غیر معینہ مدت تک طویل جنگ بندی کا اعلان کردیا ہے۔ ساتھ ہی افغان طالبان کے ترجمان اور افغانستان کی عبوری حکومت کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بار پھر یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ کسی کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ایک نجی ٹیلیویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ افغان طالبان فریقین کے مابین ثالث کا کردار ادا کررہے ہیں تاہم مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں بھی افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ذبیح اللہ مجاہد کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی طالبان طویل جنگ بندی پر رضامند ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ اس معاملے میں جلد از جلد کو ئی پیشرفت ہو۔
افغان طالبان کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان میں امن و امان کا قیام پاکستان کی حمایت اور تعاون سے مشروط ہے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی ملک اس وقت ان پر پوری طرح اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے اور جب تک ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جاتا تب تک وہ اس قابل نہیں ہوسکتے کہ اپنے ملک کے مسائل پر قابو پاسکیں۔ علاوہ ازیں، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان صرف اسی صورت میں افغانستان کی کوئی مدد کرسکتا ہے جب اس کے اندر امن و امان کی صورتحال تسلی بخش ہو۔ اگر ٹی ٹی پی یا کسی بھی اور تنظیم نے پاکستان کے اندر امن و امان کی صورتحال کو بگاڑنے کی کوشش کی تو اس سے افغانستان کو بھی نقصان پہنچے گا، لہٰذا افغان طالبان کو چاہیے کہ وہ اپنی حکومت کو دوسرے ممالک سے تسلیم کرانے اور اپنے ملک میں امن و امان اور استحکام کے قیام کے لیے پاکستان کے ساتھ اس معاملے میں بھرپور تعاون کریں۔

ای پیپر دی نیشن