پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا میں ایک عظیم اور خوبصورت عورت پیدا ہوئی جس کا نام رہتی دنیا تک روشن ستارے کی طرح چمکتا رہے گا جس کو والدین پیار سے پنکی کہتے تھے اور نام اس کا بے نظیر تھا۔ 1953 ء میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے گھر 70 کلفٹن میں 21 جون کو ایک حسین و جمیل بیٹی پیدا ہوئی جو نصرت بھٹو اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی اولاد تھی جس کا نام اپنی پھوپھو بے نظیر کے نام پر رکھا گیا ۔ جس کا دادا ریاست جونا گڑھ کا وزیراعظم تھا والد شہید ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کا وزیرخارجہ اور بالآخر وزیراعظم منتخب ہوا، پانچ سال ایسی حکمرانی کی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ پنکی سے بے نظیر تک کا سفر بہت کٹھن تھا۔ پنکی کو والد نے ایسی تربیت دی جو ان کے والدین سے ان کو ورثہ میں ملی تھی جن میں غریبوں سے محبت کرنا اور اپنی ذات سے بے نیاز رہنا سرفہرست تھا۔ اس تعلیم اور تربیت نے پنکی سے بے نظیر بھٹو کا سفر بہت مشکل بنا دیا مگر دلیر باپ کی دلیر بیٹی نے حالات کا مقابلہ ڈٹ کر کیا یہاں تک کہ باپ کی طرح خود بھی شہادت کا رتبہ پا گئی اور تاریخ میں اپنا نام سنہرے الفاظوں میں لکھ گئیں۔
کل اس عظیم ہستی کا یوم ولادت ہے میری اور بے نظیر کی یادیں اور باتیں ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ نوجوانی سے لیکر شہادت تک لاتعداد یادیں ہیں جو میرے اندر جلتی بجھتی رہتی ہیں۔ بے نظیر بھٹو ایک نیک عورت تھیں اور والدین کی فرمانبردار تھیں۔ ایک بہترین بیٹی، بہترین بیوی، بہترین ماں اور سب رشتوں سے بہتر ایک مخلص لیڈر تھیں۔ سادہ خوراک سادہ لباس ان کا شوق تھا حالانکہ وہ چاہتیں تو دنیا کا اعلیٰ سے اعلیٰ لباس پہن سکتی تھیں مگر وہ قوم کی خاطر سادہ زندگی گزارتی تھیں ان کو دال چاول بہت پسند تھے ۔کچے امرود بھی شوق سے کھاتی تھیں۔ بے نظیر سونے کا چمچ منہ میں لیکر پیدا ہوئی تھیں۔ مگر بلا کی سادہ تھیں۔ اعلیٰ تعلیم، اعلیٰ خاندان، خوبصورتی میں لاجواب کونسی خوبی تھی جو اللہ تعالیٰ نے نہیں دی تھی مگر بار بار اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں۔ شہید بی بی تین سال کی ہوئی تو کراچی کے انگلش میڈیم سکول لیڈی میرٹ ہائی سکول میں داخل کروایا تھا اس کے بعد اعلی تعلیم کیلئے ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں میں گئیں بی بی شہید اپنی طرف سے فارن سروس میں جانا چاہتی تھیں ۔ والد ذوالفقار علی بھٹو نے دیکھ لیا تھا کہ پنکی بہت ذہین اور دلیر لڑکی ہے اس لئے انہوں نے بی بی شہید کی تربیت سیاسی طور پر کرنی شروع کردی اور اپنی سیاست میں ان کو شامل کرلیا۔ بھٹو شہید کو جب آمر ضیاء الحق نے امریکہ کے کہنے پر ایٹم بم بنانے اور اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی سزا دی تو بی بی شہید صرف 25 سال کی تھیں اور لاہور میں میرا گھر ان کی سیاسی رہائش گاہ تھا۔ بے نظیر بھٹو شہید 1977ء میں جب بھٹوشہید کے خلاف تحریک نظام مصطفی چلی تو واپس آئیں اس وقت آمر ضیاء الحق نے ان کو جیل میں ڈال دیا تھا۔ بی بی شہید نے میرے گھر پارٹی کی کمان سنبھال لی اور پھر بھٹو شہید کے کہنے پر وہ بیرون ملک چلی گئیں۔ اس سے قبل پیرس میں چھوٹے بھائی شاہ نواز کی شہادت ہوگئی۔ بی بی شہید پر ایک قیامت کا وقت تھا مگر وہ بہت دلیر عورت ثابت ہوئیں ۔وہ اپنے بھائی کا جنازہ لیکر لاڑکانہ آئیں اور ایک ہفتہ لاڑکانہ میں گزارا۔ ادھر جب شہید ذوالفقار علی بھٹو کو آمر ضیاء الحق نے امریکہ کے کہنے پر پھانسی دی تو بی بی سکھر جیل میں تھیں اور دونوں ماںبیٹیوں کو اس سیل میں الگ الگ رکھا گیا تھا۔ بی بی نے ہمت نہ ہاری۔ ہم بھی پابند سلاسل تھے۔ شہید بی بی نے بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔ ٓاخر10 اپریل 1986ء کو جب وہ پاکستان آئیں تو لاہور ایئرپورٹ سے مینار پاکستان تک انسانوں کا ایک ہجوم تھا جو ان کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ بعدازاں نصرت بھٹو نے بینظیر بھٹو کی مقبولیت کو مدنظر رکھتے ہوئے 18 دسمبر 1997ء میں زرداری قبیلے کے فرد آصف علی زرداری سے اپنی بیٹی کی شادی کردی۔ شادی کے بعد اور 1988ء کے الیکشن سے قبل بی بی شہید کے گھر ایک چاند سابیٹا بلاول بھٹو زرداری پیدا ہوا ۔ بے نظیر شہید نے 1988ء سے 1990ء تک 18 ماہ تک اپنی پہلی حکومت کی۔ دوسری حکومت 1993ء سے لیکر 1996ء یعنی تین سال تک کے عرصہ تک محیط تھی۔حکومت ہی کے دوران اللہ تعالیٰ نے دو بیٹیاں بھی عطا ء کیں۔ ایک بیٹی کراچی دوسری برطانیہ میں پیدا ہوئی۔ پھر ایک ایسا دن بھی آیا جو ہمارے لئے قیامت سے کم نہ تھا ۔میں بھی وہی موجود تھی یہ دل خراش منظر میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ 27 دسمبر 2007ء راولپنڈی میں الیکشن مہم کے سلسلے میں بے نظیر بھٹو کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا یہ شام کی تنہائی تھی جب ہم اپنی عظیم لیڈر اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم اور بھٹو خاندان کی لاڈلی بیٹی بے نظیر بھٹو سے جدا ہوگئے ۔میں سوچتی ہوں پنکی سے بے نظیر بھٹو تک کا سفر کتنا دکھوں سے بھرا پڑا ہے۔
٭…٭…٭
پنکی سے شہید بے نظیر بھٹو تک
Jun 20, 2022