گرے لسٹ سے اخراج، افسانہ اور حقیقت

رواں ماہ  14 تا 17 جون کو برلن میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے بعد اعلان کیا گیاہے کہ پاکستان نے مذکورہ ادارے کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں اور ا ب پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ادارے کا وفد زمینی حقائق کا معائنہ کرنے پاکستان آئے گا اور اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو اس برس اکتوبر تک پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالا جا سکتا ہے۔  ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابھی پاکستان نے گرے لسٹ سے اپنا نام نکالے جانے کی جانب ایک قدم اور بڑھایا ہے، لیکن تمام سیاسی جماعتیں اس کا کریڈٹ لینے کے لیے میدان میں اتر آئی ہیں اور خوشیوں اور مبارکوں کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ یہ انکی نئی نئی حکومت کا کمال ہے جبکہ تحریک انصاف کے  دوستوں کا دعویٰ ہے کہ اس سلسلے میں زمین ہموار کر کے بیج تو وہ لوگ ڈال گئے تھے ، موجودہ اتحادی حکومت نے تو صرف فصل کاٹی ہے۔ خوشیاں منانے اور مبارکیں دینے سے قبل یہ سمجھنا  اہم ہے کہ یہ ادارہ دراصل ہے کیا؟ گرے لسٹ ہوتی کیا ہے اور اس لسٹ میں سے نام نکل جانے سے موجودہ صورتحال میں ایک عام پاکستانی کی زندگی میں اگر کوئی فرق آئے گا تو وہ کیا ہو گا؟
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نامی بین الاقوامی تنظیم  کا قیام 1989ء میں عمل میں لایا گیا ۔ اس عالمی تنظیم کا  بنیادی مقصد تمام دنیا میں پیسے کی غیر قانونی ترسیل روکنے کی کوشش کرنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ادارہ ایک طرح سے دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی ہتھیار ہے ، کیونکہ دہشت گردی چاہے کسی بھی ملک میں ہو اور اسکے مقاصد چاہے کچھ بھی ہوں، تمام دہشت گرد گروپوں کو اپنی کارروائیوں کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور ظاہر ہے غیر قانونی کاموں کے لیے انکو پیسے کی ترسیل غیر قانونی ذرائع سے ہی کی جا سکتی ہے۔ اس وقت 200 سے زائد ممالک اس تنظیم میں شامل ہیں۔ 35 ممالک خود ممبر ہیں اور باقی ممالک کسی نہ کسی علاقائی تنظیم کے توسط سے اس تنظیم سے منسلک ہیں۔پاکستان بھی ایک ذیلی تنظیم ’’ ایشیا پیسیفک گروپ‘‘ (اے پی جی) کے ذریعے اس سے وابستہ ہے۔ یہ ادارہ  اپنے ہر اجلاس کے بعد مختلف ممالک کی درجہ بندی کی فہرستیں جاری کرتا ہے ۔ ’’بلیک لسٹ ‘‘ میں وہ ممالک ہوتے ہیں جو مناسب قانون سازی کے لیے عالمی اداروں سے ’’ عدم تعاون‘‘ کر رہے ہوں۔ دوسری ’’گرے لسٹ‘‘ ،  جس میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جو عدم تعاون تو نہیں کر رہے ہوتے لیکن ان ممالک میں اس سلسلے میں قانون سازی یا قوانین پر عمل درآمد ناکافی ہو۔ ایف اے ٹی ایفکے ممبر ممالک کسی بھی ملک کا نام ان فہرستوں میں شامل کرنے کی قرار داد پیش کر سکتے ہیں لیکن اگر رکن ممالک میں سے کم از کم تین ممالک اس قرارداد کی مخالفت کریں تو یہ قرار داد مسترد ہو جاتی ہے۔ سب سے پہلے 2008  ء میںپاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ بعد ازاں 2012   ء میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا جو 2015 ء تک رہا۔ اسکے بعد 2018  ء میں پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میںشامل کر لیا گیا، جب امریکہ کی ’’آشیرباد‘‘ سے اسکے مغربی حواریوں اور بھارت کی مدد سے اس سلسلے میں قرارداد پاس کی گئی۔ یہ وہ  دور تھا جب پاکستان افغانستان میں امریکی پالیسیوں کی مخالفت کر رہا تھا اور اس بنا پر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات شدید سرد مہر ی کا شکار ہو گئے تھے۔ تلخ حقیقت یہی ہے کہ اس لسٹ میں شمولیت یا اس سے نام کا اخراج صرف معاشی پالیسیوں پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ عملی طور پر پر دنیا کی سیاسی صورتحال اور مختلف ممالک کے باہمی مفادات بھی اس پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ 2018 ء میں امریکہ اور برطانیہ کی حمایت کے ساتھ بھارت کی جانب سے پیش کی جانے والی پاکستان مخالف قرارداد کی بنا پر پاکستان کو ایک بار پھر گرے لسٹ میں شامل کر دیا گیا تھا۔
ہماری موجودہ صورتحال میں گرے لسٹ سے نام نکل جانے کے بعد ایک عام پاکستانی کی زندگی میں کیا مثبت تبدیلی آئے گی؟ جواب ہے کچھ نہیں۔ ٹھیک ہے اس سے ترسیل زر میں شاید کچھ آسانی  پیدا ہو گی لیکن جس طرح کی تصویر پیش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کی تجارت بڑھ جائے گی، بیرونی امداد کی بارش ہو گی اور معلوم نہیں کیا کیا، ویسا کچھ نہیں ہو گا۔ مثبت تجارت کا بڑھنا  یا نہ بڑھنا تو بعد کی بات ہے، پہلا سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ہمارے پاس برآمد کرنے کو ہے کیا؟ کیا ہماری زراعت اور صنعت کے حالات ایسے ہیں کہ ہم اپنی برآمدات میں خاطر خواہ اور فائدہ مند  اضافہ کر سکیں؟ دوسرا یہ کہ تجارت کا تعلق کسی ملک کی پیداوار اور دوسرے ممالک کی ضرورت سے ہے۔  اس وقت گرے لسٹ میں شامل 23 ممالک میں ترکی اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ نہ تو انکی تجارت میں کوئی کمی نظر آتی ہے نہ انکی معیشت تباہی کے دھانے پر ہے۔ اسی طرح  روس پر امریکی پابندیوں کے باوجود کیا ضرورتمند دنیا روس کے ساتھ تجارت نہیںکر رہی؟ اگر ہمارے پاس بھی دنیا کو دینے کے لیے کچھ ہو گا، جسکی دنیا کو ضرورت ہے تو خریدار خود بخود ہمارے پاس آئے گا،  ہمارا نام جس مرضی لسٹ میں ہو۔ ہمارے معاشی مسائل کا حل کسی لسٹ سے نام کے اخراج میں نہیں بلکہ اس بات میں ہے کہ ہماری درآمدات کم سے کم ہوں اور برآمدات کے لیے ہم زیادہ سے زیادہ  مصنوعات مسابقتی قیمتوں پر بنائیں۔ اس بارے میں نہ کوئی منصوبہ بندی ہے نہ کوئی بات کر رہا ہے۔ رہی بات بیرونی سرمایہ کاری کی تو چاہے یہ امداد کی صورت میں ہو اور چاہے تجارت یا کسی صنعت کے قیام کی صورت۔ سرمایہ کار ہر صورت اپنی سرمایہ کاری منافع اور سود سمیت واپس لے جاتا ہے۔ ایک زمینی حقیقت یہ بھی ہے کہ کرپشن ہو یاکوئی اور غیر قانونی کاروبار ، اس سے کمایا گیا پیسہ ’’ منی لانڈرنگ‘‘ کے ذریعے سے امریکہ، برطانیہ یا پھر کسی نہ کسی دوسرے ترقی یافتہ مغربی ملک کو ہی بھیجا جاتا ہے۔ اس کے لیے ظاہر ہے کہ وصول کنندہ ممالک میں بھی ایسے غیر قانونی نیٹ ورک موجود ہوتے ہیں جن کے ذریعے یہ پیسہ وصول کیا جاتا ہے ۔ بھارت سے کراچی اور بلوچستان میں امن امان خراب کرنے کے لیے جو پیسہ بھیجا جاتا ہے اس کے لیے جو نیٹ ورک استعمال ہوتا ہے وہ بھارت میں شروع ہوتا ہے ۔ اسی طرح اگر کسی بھی ملک سے پیسہ غیر قانونی طور پر امریکہ یا یورپ کو بھیجا جاتا ہے تو کیا یہ سب ان ممالک کے بنکوں اور منی لانڈرنگ نیٹ ورک کی ملی بھگت کے بغیر ممکن ہے؟ چوری کا مال بیچنا بھی جرم ہوتا ہے اور خریدنا بھی۔ ناجائز پیسہ جائے یا آئے دونوں صورتوں میں ناجائز ہوتا ہے۔ کیا کبھی ان طاقت ور ممالک سے بھی اس سلسلے میں سوال کیا جائے گا؟

ای پیپر دی نیشن