برادرم حسن نثار سے ملاقات کا سُرور

Jun 20, 2022

اٹھارہ جون کی شام کی رم جھم میں ،میں نے پاک عرب سے پی سی ایس آئی آر کا ایک جانفزا سفر طے کیا۔ چند روز قبل تک چوٹی سے ایڑی تک پسینہ بہہ رہا تھا ، لیکن اس روز گاڑی کے شیشے کھلے تھے اور جسم پر کپکپی طاری تھی۔ ایک روز کی بارش نے لاہور کو ٹھنڈا ٹھار بنادیا ۔ نہرِ لاہور پر لانگ ڈرائیو کا اپنا ہی ایک مزا ہے ، نہر کے کنارے بھیگے ہوئے درخت تیز ہوا کے جھونکوں سے اپنے خالق کے حضور سربسجود نظرآرہے تھے۔ علامہ عبدالستار عاصم کی رہنمائی میں جناب حسن نثارکا گھر تلاش کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ دروازے کے باہر چوک میں چند کرسیاں پڑی تھیں، دل چاہا کہ حسن نثار صاحب کو باہر بلالیا جائے اور یہیں چوک پر محفل جمائی جائے۔ لیکن پتہ چلا کہ وہ تہہ خانے میں اپنے پروگرام کی ریکارڈنگ میں مصروف ہیں ۔ 
حسن نثارکے دل کی طرح ان کا گھر بھی فراخی کا منظر پیش کررہا تھا۔ ہر طرف سبزہ لہلہارہا تھا۔ وہیں کہیں سے سیڑھیاں نیچے اتر رہی تھیں۔ میں احتیاط سے سیڑھیاں اترا، حسن نثار کی مقناطیسی شخصیت مجھے اپنی طرف تیزی سے کھینچ رہی تھی،اور میں 75سال کا بوڑھا، بینائی سے محروم شخص اس شش و پنج میں مبتلا تھا کہ کہیں قدم پھسل نہ جائے اور ہڈی پسلی ایک نہ کروابیٹھوں۔ مگر عشق کے جہان کے اور ہی آداب ہیں۔ 
میں حیران وششدر اس محبت کدے میں خراماں خراماں نیچے اترا ،سامنے ایک کھلا اور روشن کمرہ تھا۔ریکارڈنگ ٹیم کے کیمروں سے ماحول بقعہ ِ نور بناہوا تھا۔حسن نثار نے آلو بخارے اور املی سے کشیدکئے ہوئے مشروب سے تواضع کی ۔ جیسے ہی چند گھونٹ پیٹ میں گئے تو دل و جان میں ٹھنڈک سی پڑگئی۔ 
حسن نثار کی شخصیت اس ناریل کی طرح کی ہے ،جو اوپر سے کھردرااور سخت ،مگر اندر جھانک کر دیکھیں تو ٹھنڈے ، میٹھے اور دودھیا مشروب کے چشموں سے معمور…! حسن نثار کی تحریر سنگساری کا منظرپیش کرتی ہے ۔ مگر ان کی گفتار کانوں میں شیرینی گھول دیتی ہے اور وہ اپنے مخاطب کو دل میں سمیٹ لیتا ہے ۔ حسن نثار نے محفل میں گفتگوکاآغاز اپنی ایک نعت سے کیا ۔قارئین حیران ہوئے ہونگے کہ حسن نثار اور نعت کا کیا جوڑ…! 
علامہ عبدالستار عاصم مجھے بتاچکے تھے کہ حسن نثار اپنے ہر ملاقاتی کو اپنی اس نعت کا خوبصورت ہدیہ پیش کرتے ہیں ۔ایک منقش کارڈ پر روضہ رسول ﷺاور مسجد نبویؐ  کی منور تصویریں اور ان کے پہلوئوں میں نعت رسول مقبول ﷺ کے اشعار ایک دلکش بہار کے نقش ونگار معلوم ہوتے ہیں ۔ حسن نثار نے دھیمے اور مہذب لہجے میں نعت سنانا شروع کی ، جب وہ اس شعر پر پہنچے کہ 
بیچ طائف بوقت سنگ زنی 
تیرے لب پہ سجی دعا ہوتا
مجھے یہ شعر صدیوں پیچھے لے گیا ۔میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو ٹپکنے لگے۔ میرے نبیﷺ طائف کے سرداروں کو اسلام کی انقلابی دعوت دینے گئے تھے، لیکن وہاں ایک سخت آزمائش نے انہیں آن گھیرا۔ طائف کے گلی بازاروں میں ایک اللہ کی واحدانیت بلند کررہے تھے اور شہر کے آوارہ نوجوان ان پر پتھر برسانے لگے ۔ سر سے پائوں تک اس سرزمین نے انہیں لہو سے تر بتر کردیا ۔ 
میں 1994ء میں برادرم سعید احمد چمن کی کمپنی کی طرف سے بھیجے گئے وزٹ ویزے پر عمرہ کرنے گیا تو میرا قیام جدہ میں ان کے گھر میں ہوا۔ میں نے راتوں رات عمرہ ادا کیا ۔ اگلے روز برادرِ عزیز حسین احمد پراچہ طائف سے اپنی گاڑی لیکر آگئے اور ہم ایک کشادہ ہائی وے  پر سفر کرتے ہوئے طائف کے پہاڑی مقام پر پہنچے۔ حسین پراچہ ،تاریخ کے اوراق پلٹ رہے تھے ۔ انہوں نے مجھے طائف کا کھنڈر نما شہر دکھایا ۔ کہ یہ پرانا طائف ہے جہاں کوئی انسان آباد ہونے کی کوشش بھی کرے تو وہ اپنی اس کوشش میں ناکام ہوجاتا ہے ۔ 
طائف کے اس پرانے شہر کو خدا کی بددعا لگی ہوئی ہے ۔ میرے نبی ﷺخون سے لت پت ایک پہاڑ کی اوٹ میں پناہ لینے کیلئے بیٹھے  تو اللہ نے ایک فرشتہ ان کے پاس بھیجا ، جس نے ان سے کہا کہ اگر آپ حکم دیں تو طائف کے اس شہر کو دو پہاڑوں کے بیچ میں سرمہ بناکر رکھ دوں۔۔۔میرے نبی ﷺ  پر رحمت اللعالمینی کا وصف غالب آگیا، انہوں نے انکار میں سرہلایا اور طائف والوں کو دعا  دی کہ یااللہ ! طائف والوں کو ہدایت دے اور ان کی مدد سے اسلام کو غلبہ ملے ۔ 
خلافتِ عثمانیہ کے دور میں حضور ﷺ کے تمام تاریخی آثار کو محفوظ کرنے کیلئے جگہ جگہ مساجد تعمیر کردی گئی تھیں۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ مجھے اس باغ میں بھی لے گئے جہاں ایک یہودی نے ان کو پناہ دی تھی اور انہیں انگور کا تازہ رس نکال کر پلایا تھا۔ میرا دل چاہا کہ میں طائف کی ان گلیوں بازاروں میں اپنے نبی کی ڈھال بنتا اور ان کی طرف آنے والے سارے پتھروں کو اپنی پیشانی اور اپنے سینے پر روک لیتا ۔اور یہ سارے زخم ،سارے الم میں نے سہے ہوتے ۔ طائف کے اس سفر کی یادیں ساری زندگی میری روح میں کانٹا بن کر چبھتی رہیں گی ۔ 
میں ماضی کی تلخ یادوں میں کھویا ہوا تھا کہ حسن نثار نے اپنی نعت کا اگلا شعر پڑھا:
کسی غزوہ میں زخمی ہوکر میں 
تیرے قدموں میں جا گرا ہوتا
یہ شعرسن کر مجھے احد پہاڑ کی وہ چوٹی یاد آگئی جہاں سے پوری جنگ کے دوران میں حضور ﷺ نے پورے غزوہ احد کی کمانڈ کی تھی ۔ غزوہ احد میں ایک دفاعی لغزش کی وجہ سے کفارمکہ نے حضور ﷺکی کمان پوسٹ پر حملہ کردیا ۔ اور یوں اس جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ حضورﷺ کے ساتھ چند جانثار تھے اور کفار کا ایک پورا دستہ ان پر تیر وتفنگ برسارہا تھا۔ یہ ایک ایسی مڈبھیڑ تھی کہ چشم ِ فلک نے کبھی ایسا دلدوز منظر نہیں دیکھا ہوگا ۔ کفار کا دبائو اس قدر شدید تھا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے سر پر جو خود پہن رکھا تھا ،اس کا لوہا ان کے ایک جبڑہ مبارک میں گھس گیا ۔ کفار کے اس حملے میں نبی پاک کے سامنے کے دو دندان مبارک بھی شہید ہوگئے ۔ اس قیامت خیز عالم میں حضور کے جانثاروں کے حوصلے نہیں ٹوٹے اوروہ حضور کا دفاع اس طرح کررہے تھے کہ منہ نبی کی طرف تھے اور پیٹھ کفار کی طرف۔ وہ نبی پاک کی طرف آنے والے تیروں اور تلواروں کے وار  روک رہے تھے ۔ گھمسان کے اس معرکے میں کئی صحابہ کرام ؓ  گھائل ہوکر یوں گرے کہ ان کے سر نبی کے قدموں میں تھے۔ یہ جذبے اور جنون کا معرکہ تھا۔ یہ عشق مصطفی  ؐ سے سرشار فدائین ایک ایک کرکے اپنے نبی ؐ پر قربان ہورہے تھے ، بالآخر جانفشانی سے لڑتے ہوئے کفار کا حملہ پسپا کردیا گیا ۔ 
حسن نثار نے اپنا یہ شعر بار بار پڑھا کہ 
کسی غزوہ میں زخمی ہوکر میں
تیرے قدموں میں جا گرا ہوتا
قارئین کرام ! میں اس شعر کی تاب لانے کے قابل نہیں ہوں۔ دل چاہتا کہ میرا قلم گھائل ہوکر نبی پاک ؐکے قدموں میں گرکر ان پر نثارہوجائے۔ 
حسن نثار نے یہ نعت کیا لکھی ہے ، دلوں میں کچوکے لگائے ۔تہہ خانے کے باہر بارش کی رم جھم تیز ہوگئی تھی اور میں نے سسکیاں بھرتے ہوئے حسن نثار سے رخصت کی اجازت لی ۔
٭٭٭ 

مزیدخبریں