محمدؐ سے محبت ایمان کا تقاضا ہی نہیں عین ایمان ہے 


کیچ لائن 
ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی سے خصوصی گفتگو
ڈیک 
حضورنبی پاک کی ذات مبارک ہی وہ سائبان ہے جس میں خوار اْمت پناہ لیتی ،متحدہو تی اور سکون پاتی ہے 
حضورنبی پاک کی ذات گرامی بھی مسلمانوں کی زندگی کا سرچشمہ ہے جو ہر ایک کو فیض یاب کرتا ہے

عنبرین فاطمہ 
سوا چودہ سوسال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔اس عرصے میں دنیا میں بڑے بڑے انقلاب آئے، صلیب وہلال کے معرکے ہوئے، حکومتیں بنیں اور مٹ گئیں ، عروج و زوال کی نئی نئی مثالیں قائم ہوئیں ، کبھی خلافت کا احیاء ہوا، کبھی ملوکیت کی بساط بچھی ، نظام بھی ابھرے اور نظریات بھی نموپذیر ہوئے اور پھر قصہ پارینہ بن گئے، تعبیرات اور عقائد میں اختلافات ابھرے، فرقے بنے اور ختم ہوگئے۔ یہ سب ہوتا رہا مگر حضور نبی پاکؐ کی ذات بابرکات کی ضیا پاشیاں اپنی جگہ برقرار رہیں اور ہر دور میں اپنی لو سے انسانیت کو منور کرتی رہیں۔ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ انقلاب زمانہ ان کی پاکیزہ ہستی کی ضیاء  پاشیوں کو ذرہ برابر مدہم نہ کر سکے اور ہر دور میں ان کی ذات مرکز محبت بن کر چشمہ ہدایت بنی رہی اور آئندہ بھی انسانیت اس سر چشمہ ہدایت کی ناموس کی حفاظت کرکے اور ان کی پیروی کرکے اپنی دنیا و عقبیٰ کو سدھارتی رہے گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موجودہ فتنوں کا دور اس بات کا تقاضا کررہا ہے کہ حضور نبی پاک ؐ کی ذات بابرکات جو ہمارے لیے دنیا و عقبیٰ کی سرفرازی کا آخری سہارا ہے اور جن کا نام سنتے ہی ہر مسلمان کے دل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے اور محبت اور عشق کا ایک ایسا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس کا غیر مسلم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ حضور نبی پاک ؐ سے عشق اْمت مسلمہ کی قوت کا اصل سرچشمہ اور خزانہ ہے اور اسلام دشمن طاقتیں اسی خزانے کو لوٹنے کے درپے ہیں۔
اقبال نبی پاک ؐ کی شان اقدس کے بارے میں فرماتے ہیں۔
 جہان ِ رنگ و بو کی جس چیز پر بھی نظر ڈالیں جس سے آرزوئیں اور تمنائیں جاگ اٹھتی ہیں یا توحضرت محمدؐ کے نور کی وجہ سے اس کو قدرو قیمت حاصل ہے یا وہ ابھی ان کے نور کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ انسان کے لیے یہ کائنات بنائی گئی اور انسان کامل یعنی حضورنبی پاک ؐ کریم وجہ کائنات ہیں۔ کائنات کے تمام قافلے چاہے وہ انسان ہوں یا کوئی اور مخلوق ، چاندہوں یا ستارے کہکشائیں سب کو اسی معنیٔ در نایاب کی تلاش تھی جوحضورنبی پاک ؐ کی ذات اقدس کی صورت میں ظہور پذیر ہوئی۔
درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریحً گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
ہم نے یہ وطن عزیز اسی لیے حاصل کیا تھا کہ ہم اس میں سے نظام مصطفیٰ کا قیام عمل میں لائیں گے۔ہم نے پاکستان کو اسلامی ، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کا عزم کیا تھا کہ اس کو حضورنبی پاک ؐ کے نور سے منور کریں گے اور ابولہب کے چیلوں کی چنگاریوں سے محفوظ رکھیں گے مگر وقتاًفوقتاًکچھ شرپسند عناصر اپنی مذموم چالیں چلتے ہیں اور اب ان کا ہدف ہمارا آخری مرکز محبت ہے۔بھارتی ملعونہ کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کیلئے امت مسلمہ متحد ہو کر باہر نکل آئی ہے اور بی جے پی کی جنونی حکومت کو بھی جان کے لالے پڑ چکے ہیں ۔سمیحہ راحیل قاضی نے مزید کہا کہ فتنوں کے اس دورِ لا مرکزیت نے اْمت کو اس کے آخری منبع و مرجع سے محروم کرنے کے لیے ہدف بنایا ہے اور یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی پاگل سورج ،پانی اور ہوا کو گالی دے یا روشنی ، فضا اور موسم کو برا بھلا کہہ دے، کسی صاف اور شفاف میٹھے پانی کے چشمے کو کیا فرق پڑتا ہے ۔اگر اس کو لوگ گدلا اور کھارا کہنے لگیں۔ اس طرح چمکتے ہوئے سورج  کولاکھوں لوگ بھی سیاہ پتھر کہنے لگیں تو بھی اس کی ایک کرن کو نہیں روک سکتے۔ وہ بدستور چمکتا رہے گا مگر امت کا مفاد اسی میں ہے کہ اس عظیم ترین ہستی اور محبوب دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق اور ناموس کی حفاظت اور دفاع کرے تاکہ معاشروں کا امن قائم رہے اور افراد کی اصلاح کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس مثالی انسان کامل کے ساتھ عقیدت و محبت میں ذرہ برابر کمی نہ ہو۔
حضورنبی پاکؐ  کی ذات مبارک ہی وہ سائبان ہے جس میں خوار وزار اْمت پناہ لیتی ہے، متحدہو جاتی ہے اور سکون پاتی ہے ، دشمن اس آخری سہارے سے اْمت کو محروم کرنے کے درپے ہے مگر ہمیں متحدہو کر ایمان کی اس رمق کو بچانا ہے جسے امت کے جسد سے نکالنے کے لیے حضورنبی پاکؐ  کی ذات اقدس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔دنیا میں انقلاب کی رفتار بہت تیز ہے اور روز بروز تیز تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پہلے ان کے لیے زمانہ درکار ہوتا تھا اب لمحوں میں وہ سفر طے ہونے لگا ہے اور کبھی تو لمحے کی خطا صدیوں کی سزا میں تبدیل ہو سکتی ہے اور کبھی پلک جھپکتے اور دوگام چل کر بھی منزل سامنے آجانے کا امکان بن رہا ہے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ایمان بالغیب رکھنے والی قوم ہیں۔ ہم زمینی حقائق اور اسباب پر بھروسہ نہیں کرتے بلکہ اپنے قوی اور قادر رب کی قوت پر بھروسہ رکھتے ہیںکہ جب اس کا حکم آجائے تو سب زمینی حقائق زمین بوس ہو جایا کرتے ہیں۔ ہمیں حضورنبیٔ پاک ؐسے محبت کے اس خزانے کو لٹنے سے بچانا ہے۔ اس بکھری ہوئی مگر اللہ اور حضورنبیٔ کریم ؐ کی محبت سے سرشار امت کو اسی مرکز محبت کے گرد اکھٹا کرنا ہے۔ان حالات میں ہمیں اقوام عالم کو یہ باور کرانا ہے کہ معاشروں کو فتنہ و فساد سے بچانے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ جن برگزیدہ ہستیوں کی بدولت یہ دنیا نیکی ، سچائی، حق پرستی اور عدل و انصاف جیسی قدروں سے آشنا ہوئی، ان کی شان میں گستاخی کو کوئی معاشرہ اور مذہب برداشت نہ کرے اور حضورنبیٔ پاک ؐ کو اللہ نے سراجاًوہاجا ًاور سراجاً منیرا ًکا لقب دیا ہے کہ جس طرح سوج روشنی، حرارت اور توانائی کا منبع ہے اسی طرح حضورنبی پاک ؐ کی ذات گرامی بھی مسلمانوں کی زندگی کا سرچشمہ ہے جو ہر ایک کو فیض یاب کرتا ہے اس فتنوں کے دور میں آئیے ظلمت شب کارونارونے کی بجائے اپنے حصے کی شمع یہ کہتے ہوئے جلائیں ،ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے آقائے دو جہاں حضورؐ سے اس بات پر بیعت کی ہے کہ جب تک ہمارے سر ہمارے دھڑوں پر سلامت ہیں ہم حضورنبی پاک ؐ کے لائے ہوئے نظام اور سنتوں کو نافذ کرنے کی جدوجہد اور حضورنبی ٔ پاکؐ کی ناموس کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ای پیپر دی نیشن