پاکستان FATFمیں منزل با منزل سر خرو

 فیصل ادریس بٹ
پاکستان کے دشمن ممالک اوربعض بد خواہ عناصر کی تمام تر کوششیں اور سازشیں دم توڑ گئیں اور بالآخر چار سال بعد پاکستان فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکس پلیئر نے برلن میں چار روزہ اجلاس کے دوران پاکستان سے متعلق 2  مختلف ایکشن پلان پر پیش رفت کے حوالے سے واضح کر دیا ہے کہ ٹیرر فنانسنگ کے 27 نکات سمیت منی لانڈرنگ کے 7 نکات پر عمل کر کے متعلقہ ملک نے ان شرائط کو پورا کر دیا ہے۔جن 27 نکات کو جون 2018  کے اجلاس کے دوران گرے لسٹ کے ساتھ رکھا گیا تھا ،اس میں محض ایک نکتہ تکمیل کے مرحلے میں ہے۔جس کا تعلق دہشت گردی کی مالی معاونت بارے تحقیقات اور اقوام متحدہ کی جانب سے نامزد کردہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا ہدف مکمل کرناہے۔ مجموعی طور پر پاکستان نے جون 2018 میںدیئے گئے 34 نکات کا ہدف حاصل کرلیا ہے،جسے اگلے تین ماہ کے رسمی اعلان کیلئے ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اصل میں دنیا میں منی لانڈرنگ کے ذریعے دہشتگردی کا بے قابو جن کنٹرول کرنے کے لئے عالمی سطح کے پلان کے تحت ایک ایسے ادارے کی سخت ضرورت ہے جس کی منظوری سے منی لانڈرنگ کے متعلق معلومات موصول ہونے پر ملکوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ 1989ء میں ایف اے ٹی ایف کا قیام اسی مقصد کے تحت عمل میں لایا گیا۔ اس ادارے کا مقصد ان ممالک پر نظر رکھنا اور ان پر اقتصادی پابندیاں  عائد کرنا ہے جو دہشتگردی کے خلاف عالمی کوششوں میں تعاون نہیں کرتے ۔ ایسے ممالک جو عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دیئے گئے ہوں ان سے مالی تعاون کرنے والے ممالک بھی اس میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ عالمی سطح  پر اس تنظیم کا قیام جولائی 1989ء میں جی سیون کے ہونے والے پیرس میں اجلاس میں عمل میں آیا۔ اس اجلاس میں امریکہ ‘ برطانیہ ‘ کینیڈا‘ فرانس ‘ اٹلی‘ جرمنی اور جاپان شامل تھے۔ اس کا صدر دفتر پیرس میں ہے اور اسے عالمی حکومتی تنظیم کہا جاتا ہے جو خود مختار ریاستوں کی تنظیم کہلاتی ہے۔ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کے تین بنیادی مقاصد ہیں۔ دہشتگردی کے لئے ہونے والی فنانسنگ کو روکنا منی لانڈرنگ پر قابو پانا دنیا بھر کے ملکوں کو ٹیکس کی معافی سے باز رکھنا ہے۔ ابتدائی طور پر امریکہ‘ برطانیہ‘ جاپان ‘ اٹلی‘ فرانس اور چین فیٹف کے ممبر بنے جس کے بعد مزید کئی ممالک اس میں شامل ہوگئے اور یہ تعداد 39  ممالک تک پہنچ چکی ہے۔ فیٹف جس طرح کہ پہلے لکھا ہے انسداد منی لانڈرنگ  اور دہشتگردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور ان پر عملدرآمد کی نگرانی کرتا ہے ۔جن ممالک کے قوانین اور انکے نفاذ میں مسائل ہوں ،یہ تنظیم اس بات کی نشاندہی کر تی ہے ۔لیکن حیرت والی بات یہ ہے کہ فیٹف خود کسی ملک پر پابندی عائد نہیں کرتی بلکہ اس کے رکن ممالک کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ مجوزہ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر اقتصادی پابندیاں لگائیں۔ فیٹف ممالک کی نگرانی کے لئے لسٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جنہیں گرے اور بلیک لسٹ کا نام دیا گیا ہے۔ بلیک لسٹ کو خطرناک گردانا جاتا ہے اور اس  کی لسٹ میں ان  ہائی رسک کے حامل ممالک کو شامل کیا جاتا ہے  جن کے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور قواعد میں سقم موجود ہو۔
 پاکستان تین مرتبہ گرے لسٹ میں شامل کیا جا چکا ہے۔ سب سے پہلی بار پاکستان 28 فروری 2008 ء میں اس لسٹ میں شامل کیا گیا ۔جبکہ پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد آصف علی زرداری کے عہد صدارت میںحکومت کی سطح پر اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں جون 2010 ء میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا گیا۔ 16 فروری 2012 ء کو پاکستان کو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی دوبارہ گرے لسٹ میں شامل کر دیا گیا۔ جسکے بعد منتخب  ہو کر آنیوالے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی کوششوں سے 2015 ء میں صورتحال کی بہتری کے ساتھ پاکستان اس لسٹ سے نجات  پالینے میں دوبارہ کامیاب ہو گیا۔ جسکے بعد 2018 ء میں اسے دوبارہ گرے لسٹ میں شامل کر دیا گیا ۔ اس دوران پی ٹی آئی کی نو منتخب حکومت نے فیٹف کی گرے لسٹ سے پاکستان کو نکلوانے کے لئے اقدامات تو کئے مگر انکی کوششیں رنگ نہ لا سکیں۔ نئی حکومت آنے کے بعد بطور وزیراعظم میاں شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ملکر سفارتی طور پر ازسرنو کوششیں کی ہیں جو سود مندد رہی ہیں اور جرمن وزیر خارجہ نے چند روز قبل پاکستان آ کر اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ اس مرتبہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا۔ جرمنی ان دنوں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے بطور سربراہ فرائض منصبی سرانجام دے رہا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ پاکستان کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے  اور سفارتی محاذ پر ملک کی وسیع تر نمائندہ حکومت کے اقدامات کو بجا طور پر اہمیت بھی  دی جارہی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کے دور میں ہی یہ مثبت خبر آنا اس بات کا عندیہ ہے کہ ماضی میں حکمرانوں نے پاکستان کو سفارتی طور پر جس طرح تنہائی کا شکار کر دیا تھا موجودہ حکومت اب سفارتی محاذ پر عالمی برادری کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ دنیا بھر کے ممالک میں  بد خواہوں کے بجائے پاکستان کے دوستوںکی فہرست میں اضافہ کرنے کیلئے  خیر سگالی کے جذبے سے کام لیا جا رہا ہے۔ اس محاذ پر بلاول بھٹو زرداری انتہائی محنت اور مہارت کے ساتھ عالمی برادری میں ملکی تشخص کیلئے کام کر رہے ہیں۔ دو ڈھائی ماہ بعد ستمبر 2022 ء میں جب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ٹیم پاکستان کی پراگریس کا جائزہ لینے کیلئے یہاں دورہ کر رہی ہو گی ،بلاشبہ تبدیل شدہ صورتحال میں ٹیم کے ارکان کو ملکی سطح پر ہماری تسلی بخش کارکردگی کا بہرحال ادراک ہو جائیگا، اور اس دوران پاکستان کے اس مؤقف کی رسمی طور پر فتح ہو جائے گی کہ اقوام عالم میں امن اور خوشحالی کیلئے اس کی بے لوث قربانیوں اورمسلسل کوششوں سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔

ای پیپر دی نیشن