ڈاکٹرعارفہ صبح خان :تجا ہلِ عا رفانہ
ْْْکس کافر کا دل چا ہتا ہے کہ اپنی خوبصورت، محبت، خدمت کرنے والی بیوی، پیارے من مو ہنے بچوں، والدین گھر بار، دوست احباب اور اپنی مٹی کو چھوڑ کر دیارِ غیر میں جا بسے۔ جہاں نہ زبان اپنی، نہ ثقافت اپنی، نہ مذہب اور اقدار اپنی، نہ محبت انسیت ہمدردی اور بے تکلفی کا ماحول۔ ایک غیر مذہب، اجنبی ملک، بیگانے لوگ، پرائے دیس میں جانے کے لیے بھی حو صلہ چا ہیے جو سہولتیں، محبتیں، آسانیاں اور مہربانیاں اپنے وطن میں ملتی ہیں۔ وہ کسی دوسرے ملک میں نصیب نہیں ہوتیں۔ پاکستان تو جنت ہے جسیِ آنیوالے ہر حکمران نے اپنی لوٹ مار سے جہنم بنا دیا ہے۔ پورے ملک میں روزگار نام کی کو ئی چیز نہیں ہے۔ ہر سال پاکستان میں مختلف ممالک سے لاکھوں کروڑوں اربوں ڈالرز آتے ہیں جو نہ کسی ترقیاتی کام میں استعمال ہوتے ہیں۔ نہ پاکستانیوں کی بہبود پر خرچ ہوتے۔ صرف سْننیّ میں آتا ہے کہ ہر ماہ فلاں ملک نے امداد کے نام پر اتنے کروڑ ڈالرز بھیجے۔ یہ کہاں خرچ ہوتے ہیں۔ اِس کا آج تک سراغ نہیں ملا۔ ہر ترقی یا فتہ ملک میں فیکڑیاں مِلیں کارخانے بڑی تعداد میں ہو تے ہیں، جہاں لاکھوں افراد کو روزگار ملتاہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کی ترقی اور کامیابی کا راز اْن کے چھوٹے اور بڑے پیمانے پر لگے ہو ئے کارخانے ہیں جس کی وجہ سے لوگ کام کرتے ہیں اور بیروزگار نہیں رہتے۔ بیروزگاری ہر فساد کی جڑ ہے۔ جرائم کی شرح بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ بیروزگاری ہے۔ اس وقت پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بیروزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں عوام کو نا صرف روزگار کے مواقع دئیے جاتے ہیں بلکہ اْنھیں کاروبار کرنے کے لیے قرضے بھی دئیے جاتے ہیں۔ طبّی اور تعلیمی سہولتیں دی جاتی ہیں۔ رفاہی ادارے کمزور طبقے کی مدد کرتے ہیں۔ اور ایک ہمارا ملک ہے جہاں بینظیر انکم سپورٹ کے ذریعے لوگوں کو مْفت روٹی کھانے اور گھر بیٹھ کر عیش کرنے، نکمّا بننے کا طریقہ سکھا دیا ہے۔ ہر سال جو اربوں روپے بے نظیر انکم سپورٹ ہر نکمے کام چور اور نالائق کو دیا جاتا ہے۔ اْس نے ملک میں لوگوں کو گھر بیٹھ کر کھانے اور بیکار رہنے کی عادت ڈال دی ہے۔ رہی سہی کسر ایک بیوقوف، نا اہل سابق وزیر اعظم نے لنگر خانے بنا کر نکال دی۔ جب کھانے کو با آسانی ملے گا تو لوگ محنت مزدوری کیوں کریں گے۔ چار سالوں میں پاکستان میں خواجہ سرا?ں کی فصل اْگ آئی ہے۔ ہزاروں مردوں نے خواجہ سرا?ں کا گیٹ اَپ لے لیا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، لنگر خانوں اور ایسے ہی نمائشی دکھاوے کے پروگراموں نے قوم کو تباہ برباد کر ڈالا۔ حکومت خو د بھی کمیشن کھاتی ہے اور حکومتی اہلکار بھی رقمیں بٹورتے ہیں۔ مقصد یہ کہ حکومت نے فیکڑیاں کارخانے ملیں سکول کالج دفاتر قائم کرنے اور روزگار فراہم کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی کیونکہ حکومت میں آکر سب حکمرانوں کو کھرب پتی بننے کا چسکا پڑ جاتا ہے۔ چند سالہ زندگی کے لیے دولت کے انبار اکھٹے کرنے کا جنون سوار ہے۔ جس اولاد کے لیے کرپشن کرتے اور اپنی عا قبت خراب کرتے ہیں۔ وہ کبھی قبر پر فا تحہ تک نہیں پڑھتی۔ پاکستان کی آبادی اسوِقت 25 کروڑ ہے۔ سرکاری نوکریوں میں تو سو فیصد بندر بانٹ اور اقربا پروری چلتی ہے۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں لہذا تنگ آکر وہ باہر کا رخ کرتے ہیں۔ لوگوں کے لیے قا نونی طور پر دیارِ غیر روزگار کے حصول کے لیے جانا آسان نہیں، اسلئے وہ ایجنٹوں سے رابطہ کر کے اور زیادہ پیسہ لگا کر جاتے ہیں۔ اگر ہر سال پندرہ ہزار افراد غیر قانونی طو ر پر باہر جاتے ہیں تو اِن میں سے پانچ ہزار افراد روزگار کی خواہش میں موت کے منہ چلے جاتے ہیں۔ زیادہ تر ترکی اٹلی یونان بیلجئیم میں غیر قا نونی طور پر داخل ہو نے والوں کو سمندر کے ذریعے یورپ پہنچایا جاتا ہے۔ ایک کشتی میں تین گنا لوگ لالچ میں بٹھا لیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے کشتی سمندر میں غرق ہو جاتی ہے۔ اسی طرح کنٹینرز میں لوگوں کو مرغیوں کی طرح ٹھونس دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً لوگ دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں جیسا کہ تھائی لینڈ میں چند سال پہلے پاکستانیوں کی رمضان المبارک میں موت واقعہ ہوئی جس پر تھائی لینڈ کے وزیر اعظم نے حقارت سے کہا تھا کہ پاکستانی تو کیڑے مکوڑوں کی طرح مرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ اِس گھنا?نے بیان پر حکومت پاکستان کو سانپ سونگھا رہا بلکہ حکومت نے پاکستانیوں کی نعشوں کی واپسی یا اْن کے لواحقین کی مدد تک کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اب چار دن پہلے یونان میں کشتی کو حا دثہ پیش آیا جس میں 298پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کی خبریں ملی ہیں۔ سوائے یو م سوگ منانے کے کچھ نہیں ہوا بلکہ چند دنوں کے بعد انکوائری ہو گی اور پھر سب بھول بھال جائیں گے۔ اب چار دن بعد وزیر اعظم نے بیان جاری کیا ہے۔ یہ لوگ اپنی ماں بہن بیوی کازیور اور ادھار قرض لیکر ایجنٹوں کو لاکھوں روپے دیتے ہیں اور روزگار کی خاطر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ حکومت کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ حکومت کے کان پر جْوں نہیں رینگتی۔ پاکستانی کیس حشر ات الارض ہیں کہ کو ئی بھی اپنے جوتوں تلے مَسل جائے ،وہ اندھی گو لیوں، ٹریفک حادثات، بند کنٹینروں یا سمندر میں ڈوبنے سے مر جائیں۔ یہ حالات پیدا کرنے والوں اور ذمہ داروں کو کٹہروں میں لانا چا ہیے۔ سب ذمہ داروں کو پھانسی پر لٹکا دینا چا ہیے۔