پاکستان میں گذرے چند ہفتوں کے دوران امریکہ کے نمایاں افراد کو پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بہت اعتراض رہا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ہونے والی گرفتاریاں خالصتا امن و امان کو خراب کرنے اور قانون توڑنے کی وجہ سے ہیں۔ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا یے، قانون کا مذاق اڑانے والوں، انتشار پھیلانے والوں، املاک کو نقصان پہنچانے والوں، بغاوت کا ماحول پیدا کرنے والوں اور دفاعی اداروں پر حملے کرنے والوں کے خلاف قانون حرکت میں آیا ہے۔ ان حالات میں ایسے شرپسندوں کی گرفتاریوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے جوڑنا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے۔ امریکہ کے سیاست دانوں اور دیگر افراد کی طرف سے ایسے بیانات ناصرف پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آئین اور قانون کی حکمرانی کے راستے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرنے کے مترادف ہے۔ ایک طرف تو امریکہ کو پاکستان میں شرپسندوں کی گرفتاریوں پر اعتراض ہے دوسری طرف بھارت میں صریحا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی ان کی زبانیں خاموش ہیں۔ بھارت میں ہر روز ایسے واقعات ہوتے ہیں جہاں انتہا پسند، جنونی ہندو ناصرف مسلمانوں کے بنیادی حقوق پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اگر امریکیوں کو انسانی حقوق کا اتنا ہی خیال ہے تو پھر بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نہ وہ کچھ بولتے ہیں نہ کچھ دیکھتے ہیں اور نہ ہی کچھ لکھنے کی جرات کرتے ہیں۔ کیا بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شمار نہیں، کیا وہاں مذہبی بنیاد پر جنونی ہندوو¿ں کا مسلمانوں پر تشدد بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں نہیں آتا۔ گذشتہ دنوں بھی ایسا ہی ایک واقعہ ریاست اتر پردیش کے ضلع بلند شہر میں پیش آیا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جنونی انتہا پسندوں کی جانب سے ساحل نامی ایک مسلمان نوجوان کے سر کے بال کاٹ کر اسے درخت سے باندھ دیا جاتا ہے۔ کیا یہ انسانی حقوق کیخلاف ورزی نہیں، کیا انسانیت پر ہونے والے اس ظلم کا امریکہ کے اہم افراد کو آواز بلند نہیں کرنی چاہیے۔ انتہا پسندوں کی جانب سے زبردستی ساحل نامی مسلمان نوجوان سے جے شری رام کے نعرے بھی لگوائے جاتے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کی اصل خلاف ورزی تو یہ ہے۔ جہاں دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت میں مسلمانوں کا سانس لینا بھی دشوار بنا دیا گیا ہے۔ مذہب پر حملے ہو رہے ہیں اور یہ سب کچھ صرف عام شہریوں پر ہی نہیں بلکہ نمایاں شخصیات کو بھی اس ذہنی و جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ نہ تو کشمیر اور فلسطین میں بہنے والے خون پر کسی کو انسانی حقوق یاد آتے ہیں اور نہ ہی بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے تشدد پر کوئی بولتا ہے۔ کیا یہ دوہرا معیار نہیں ہے۔ کیا یہ مفادات کا کھیل نہیں ہے۔ کیوں پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کے شرپسندوں کی گرفتاریوں کو انسانی حقوق کے ساتھ جوڑ کر دنیا کو غلط پیغام دیا جا رہا ہے اور ایک جھوٹا بیانیہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کیوں دنیا اس معاملے میں حقائق سے نظریں چراتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔
دوسری طرف بھارتی فوج میں خود کشی اور خواتین افسران سے زیادتی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندرا مودی کی انتہا پسند پالیسیوں کی وجہ سے جہاں خطے کا امن خطرے میں ہے وہیں بھارتی فوج میں بھی ذہنی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ میڈیا کچھ اس طرح سے رپورٹ کر رہا ہے کہ بھارت میں گذشتہ بیس برسوں کے دوران فوجیوں کے خودکشی کی بڑی وجہ ذہنی دباو¿ اور ڈپریشن رہا ہے۔ 2001 سے اب تک مختلف واقعات میں تین ہزار تین سو سے زائد بھارتی فوجی خودکشی کر چکے ہیں، گذرے پانچ برسوں میں آٹھ سو سے زائد بھارتی جوانوں نے افسران بالا کے رویے سے تنگ آکر خودکشی کی ہے۔ خودکشی کرنے والوں کی یہ تعداد بھارتی حکومت کے لیے تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ رواں برس اپریل میں بھارتی فوجی نے اپنے چار ساتھیوں کو گولیاں مار کر قتل کیا جبکہ رواں برس کے پہلے مہینے کے آخری ہفتے میں کرنل کھنہ نے پنکھے سے لٹک کر خودکشی کر لی اور جنوری 2023 کو فیروز پور میں لیفٹیننٹ کرنل نشانت کی اپنی بیوی کو گولی مار کر خودکشی کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔ خودکشی کے ان واقعات کے ساتھ ساتھ بھارتی افواج میں خواتین افسران کے لیے بھی کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ دو ہزار سات سے اب تک بھارتی افواج میں خواتین افسران سے زیادتی اور جنسی ہراسانی کے ایک ہزار دو سو تینتالیس واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ خطے کی سپر پاور بننے کا خواب دیکھنے والے نریندرا مودی کے لیے اپنے فوجیوں کے خود کشی اور خواتین سے زیادتی کے واقعات آنکھین کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ مہذب دنیا کو اور بالخصوص کے ان لوگوں کو جنہیں پاکستان میں ہر خرابی اور برائی نظر آتی ہے انہیں بھارت میں ہونے والے پرتشدد واقعات اور بھارتی افواج کے اپنی ہی خواتین افسران کے ساتھ زیادتی کے واقعات پر بھی کوئی قرارداد پیش کرتے ہوئے آواز بلند کرنی چاہیے۔ بہرحال اگر کوئی بات نہ بھی کرے حقیقت کو چھپایا نہیں جا سکتا۔
امریکہ کے اسی دوہرے معیار پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے درست نشاندہی کی ہے وہ کہتے ہیں کہ "امریکا کے ساتھ شراکت داری کو اہمیت دیتے ہیں جبکہ چین کے ساتھ ہمارے چھ دہائیوں پر مشتمل دیرینہ تعلقات ہیں۔ بعض اوقات ہمارے لیے بڑی عالمی طاقتوں سے تعلقات میں توازن رکھنا مشکل ہو جاتا ہے، امریکا کو ہمیں ایسی صورتحال میں نہیں دھکیلنا چاہیے جہاں ہمیں مشکل انتخاب کرنے پڑیں۔ ہم امریکا سے تعلقات کو اہمیت دیتے اور چاہتے ہیں کہ یہ رشتہ پھلے پھولے، پاکستانی مفادات کو ٹھیس نہ پہنچانے والی امریکا بھارت شراکت داری سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہماری چین، افغانستان، ایران اور بھارت کے ساتھ مشترکہ سرحدیں ہیں، ہم ان ممالک سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔"
امریکہ بھارت کو روس سے تیل خریدنے سے روکتا رہا لیکن روس یوکرین جنگ کے دوران امریکہ کے منع کرنے کے باوجود بھارت نے بڑی مقدار میں روس سے تیل خریدا امریکہ بھارت کو لاڈلا بنا کر پاکستان کو دبانا چاہتا ہے۔ یہ کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے۔ ان حالات میں جب دنیا بھر میں مہنگائی ہے اور پاکستان کو توانائی کے شدید بحران اور بھارت جیسے ازلی دشمن کا سامنا ہے پاکستان کسی بھی بند گلی میں جانا برداشت نہیں کر سکتا۔ توانائی بحران حل کرنے اور چوبیس کروڑ سے زائد لوگوں کے ملک کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے امریکہ کو بھی اپنی پالیسیوں میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اپنے ہمسایوں سے ہر وقت کی کشیدگی کا متحمل نہیں یہ کشیدگی صرف پاکستان کے لیے ہی خطرہ نہیں ہے۔ اگر عالمی طاقتیں اپنی پالیسیوں میں توازن پیدا نہیں کرتی ہیں تو ان حالات عالمی امن کو بھی بڑے خطرات لاحق ہوں گے۔
آخر میں عباس تابش کا کلام
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اٹھ کر چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابش
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں