بلاول کا بڑا ہدف 

بلاول بھٹو زرداری نے زبردست خوشخبری سنائی ہے۔ فرمایا، جس طرح ہم نے میئر کراچی کا الیکشن جیتا ، ویسے ہی اگلے قومی انتخابات بھی جیتیں گے۔ 
میئر کراچی کے الیکشن میں آپ نے پی ٹی آئی کے 32 ”ووٹوں“ کو تہہ خانہ الفت میں بند کر دیا تھا اور الیکشن جیت گئے تھے۔ قومی انتخابات میں جتنی بڑی تعداد تہہ خانوں کی چاہیے ہو گی، اتنی تعداد میں آپ فراہم کر پائیں گے؟۔ مشکل ہے۔ بہتر ہے، ہدف تھوڑا نیچے لے آئیں۔ ہاں، سندھ میں آپ کی جیت بلاشبہ پکی ہے۔ 
_____
میئر کراچی کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے جو ڈپلومیسی دکھائی، اس نے امریکی ڈپلومیسی کو مات دے دی۔ آدھے کونسلروں نے، معاہدے کے مطابق ، جماعت اسلامی کے امیدوار کو ووٹ دئیے ، آدھوں نے، معاہدوں کے برعکس، نہیں دئیے اور پیپلز پارٹی کی آغوش الفت میں پناہ لے لی۔ 
توقع تھی، قائد حقیقی آزادی اس کا نوٹس لیں گے اور انکشاف کریں گے کہ زرداری نے دس دس کروڑ میں ہمارے ووٹر خریدے۔ (دس کروڑ زیادہ ہو گیا، تین تین کروڑ کر لیں)۔ لیکن ایسا کوئی بیان نہیں آیا۔ معاہدے کے برعکس ووٹ نہ دینے پر کسی کی جواب طلبی بھی نہیں کی۔ بعض قابل احترام ذرائع کا کہنا ہے کہ کونسلروں کو جیسی ہدایت تھی، ویسا ہی عمل کیا۔ آدھوں کو ہدایت یہ تھی کہ ووٹ دینا اور باقی آدھوں کو پیغام ملا کہ ووٹ نہیں دینا ہے۔ 
حیرت ہے کہ جماعت اسلامی نے بھی اس عہد شکنی پر گریٹ خان سے کوئی شکوہ نہیں کیا۔ 
_____
جماعت اسلامی اس شکست پر اب الیکشن کمشنر کا مکّو ٹھپنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس نے 23 تاریخ کو، اس مہینے، کمشن آفس کا گھیراﺅ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 
کراچی کے الیکشن میں گھپل گھوٹالا تو ہوا لیکن میئر کے الیکشن میں نہیں، بلکہ تب ہوا جب ووٹ ڈالنے گئے۔ جنوری میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے چار لاکھ انتیس ہزار ووٹ حاصل کئے۔ پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر آئی، اس نے 3 لاکھ 61 ہزار ووٹ کا سکور کیا۔ اس لحاظ سے جماعت اسلامی کی سیٹیں پیپلز پارٹی سے دس بارہ کی تعداد میں زیادہ ہونی چاہئیں تھی۔ لیکن ہوا الٹ، پیپلز پارٹی نے چھ سات سیٹیں جماعت سے زیادہ لے لیں۔ 
یعنی پندرہ سولہ نہیں تو دس بارہ سیٹیں جماعت کی پیپلز پارٹی نے اپنے کھاتے میں ڈال لیں اور بعدازاں کہہ دیا کہ یہی تو جمہوریت کا حسن ہے۔ 
میئر کے الیکشن میں البتہ دھاندلی نہیں ہوئی۔ جب پی ٹی آئی نے عہد کی خلاف ورزی کر ڈالی اور اس کے32 ووٹر پیپلز پارٹی کے کاشانہ الفت میں پناہ گزین ہو گئے تو الیکشن کمشن کیا کر سکتا تھا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے اتحادی یعنی مسلم لیگ اور جے یو آئی بدستور اس کے اتحادی رہے اور عہد وفا نبھایا۔بے وفائی جماعت کی اتحادی نے کی، گھیراﺅ الیکشن کمشن کا۔ بالکل نیا فارمولا ہے۔ 
_____
سینٹ نے ایسا قانون پاس کیا ہے جس کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال مقرر کر دی گئی ہے۔ اس بل سے نواز شریف کی نااہلی ختم ہو جائے گی لیکن اسے ابھی قومی اسمبلی سے پاس ہونا ہے اور اس کے بعد اسے سپریم کورٹ سے، غالباً یا یقیناً ، ختم بھی ہونا ہے یعنی نواز شریف کی اہلیت پھر لٹک جائے گی۔ 
اس بل کے پاس ہونے پر تحریکِ انصاف یقیناً سخت اداس ہو گی لیکن اس نے اپنی اداسی ظاہر نہیں کی البتہ جماعت اسلامی نے اپنا غم و غصہ ظاہر کر دیا ہے، 
جماعت کا غم و غصہ اصولی بنیادوں پر ہے۔ پہلی اصولی بنیاد اس کا یہ برحق، اگرچہ غیر اعلانیہ موقف ہے کہ قانون سازی کا حق پارلیمنٹ کو نہیں یہ حق صرف تحریک انصاف کا ہے یا پھر اس کے عزت مآب عدلیاتی سہولت کاروں کا۔ دوسرا اصولی موقف ہے کہ بھلے سے ساری دنیا اہل ہو جائے ، نواز شریف کو نہیں ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے شور میں شامل ہو کر اسے پانامہ کے بطن سے برآمد ہونے والے اقامے میں نواز شریف کو تاحیات نااہل کرانے کا اعزاز حاصل ہونا چاہیے۔ بات تو حق سچ کی ہے، کوئی اپنے اعزاز سے محروم ہونا کیوں پسند کرے گا۔ 
_____
اہل صبر کی دعا سنی گئی، اہل نظر کی بددعا کیٹی بندر کے ساحل پر ڈبو دی گئی۔ الحمدللہ۔ طوفان بپر جوائے کی آمد پر اہل نظر نے سارے پاکستان کی مکمل بربادی کی بشارت میں ترمیم کر کے اسے کراچی تک محدود کر دیا تھا یعنی بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کے مصداق ترمیم شدہ بشارت یہ تھی کہ پاکستان تو بچ گیا، کراچی نہیں بچے گا، یہ تو ڈوب کر رہے گا۔ 
ڈرے ہوئے بشارت زدہ لوگوں نے سکھ کا سانس لیا جب طوفان کے ٹی بندر کو چھو کر کاٹھیاواڑ کے ساحل پر زمین بوس ہو گیا۔ لینڈ فال LAND FALL کا ترجمہ میرے خیال میں زمین بوس کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اللہ آفات سے دور رکھے اور جملہ اہل صبر کو اہل نظر کی ”بشارتوں“ سے بچائے رکھے۔ 
اہل نظر کی تازہ بشارت یہ ہے کہ پاکستان کی معاشی موت ہو چکی۔ میرا خیال ہے کہ اہل نظر کی بصارت کی موت ہو چکی۔ واللہ اعلم 
_____
یونان کے ساحل پر تارکین وطن پاکستانی بڑی تعداد میں ڈوب کر دردناک موت مارے گئے۔ اخباری رپورٹوں میں ظاہر کئے گئے اندیشوں کے مطابق جاں بحق پاکستانیوں کی تعداد تین سو سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ پاکستانی تارکین وطن، وطن سے دور، بے رحم سمندروں اور بے مہر صحراﺅں میں ایسی موت نہ مارے گئے ہوں، ہاں، اتنی بڑی تعداد والا یہ سانحہ پہلی بار ہوا ہے۔ ہر سانحے پر رپورٹوں میں انسانی سمگلرز کاگہوارہ گجرات کا ضلع بتایا جاتا رہا ہے لیکن کبھی کارروائی نہیں ہوئی۔ گجرات کے یہ انسانی سمگلر ہمیشہ ریاست و حکومت کے لاڈلے رہے۔ لوگوں کو دھوکہ دے کر ان سے فی کس لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں، پھر ایران کے صحراﺅں یا بحیرہ روم کے سمندروں میں لاوارث چھوڑ دیتے ہیں لیکن کبھی، کسی حکومت نے گجرات کے ان قاتلوں پر میلی نظر نہیں ڈالی۔ اس بار سانحہ سنگین ترین ہے اس لیے دو تین افراد تو پکڑے گئے ہیں لیکن تسلی رکھیئے چھوٹ جائیں گے۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...