شاعر کو معاشرے کی آنکھ سمجھاجاتاہے اور کہتے ہیں کہ:
مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
شاعری قافیے اور ردیف کے ساتھ کی گئی ت±ک بندی نہیں ہوتی بلکہ یہ سماج سے جڑے ہوئے انسان کے محسوسات اور تجربات کا لطیف اظہاریہ ہے۔
صابر ظفر ایک ایسے ہی شاعر ہیں جو پچھلی کئی دہائیوں سے اپنے احساسات و تجربات کو مسلسل شعری منظر نامے میں ڈھال رہے ہیں۔ غزل اس سارے عرصہ میں صابر ظفر کا اوڑھنا بچھونا رہی ہے۔ وہ ایک صاحب توفیق شاعر ہیں اور اپنا ایک منفرد شاعرانہ تشخص رکھتے ہیں۔ صابر ظفر نے ستّر کی دہائی میں ادبی حلقوں میں قدم رنجہ فرمایا اور سیدھے غزل پر طبع آزمائی کرنے نکل پڑے۔ انہوں نے غزل میں نت نئے تجربات بھی کیے زیر نظر مجموعہ” دو زرد غزال دو پہرکے “بھی ان کا ایک نئے تجربے کا شاہکار ہے جس میں انہوں نے مکمل مجموعہ کلام دو غزلہ میں تحریر کر کے تاریخ رقم کر دی۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے یہ ایک اہم سنگ میل ہے جو نووارد انِ ادب کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔
اس تجربے کے بعد انہوں نے اپنا نام شاعری کے معتبر حوالوں میں شامل کر لیا ۔ بلا شبہ وہ اپنے دور کے نمائندہ شاعر کہلائیں گے کہ تفہیم کی سطح پر ان کا شعر آپ اپنی پہچان بنا تا نظر آتا ہے۔
انکے تخلیقی وفور کی حیرت سرا یک رنگارنگ آبنائے کی طرح ہے جس میں طرح طرح کے رنگ جھلکتے ہیں۔ معاشرتی فشار ،اندرونی خلفشار ،سماجی رویے، محبت کی جاذبیت ،وصل وفراق ،احساس کا رچاو¿۔۔ کیا ہے جو ان کے شعروں میں نہیں جھلکتا۔
صلے اور ستائش کی تمنا سے بے نیاز صابر ظفر ایک سچے اور س±چےتخلیق کار کی طرح کار ادب میں ج±تے ہوئے ہیں۔ اللہ پاک ان کی تو فیقات میں اضافہ فرمائے۔
اور اب کچھ شعری انتخاب
کچھ یاد کی بارشوں نے دھویا
کچھ رونے سے اور د±ھل گیا ہوں
ممکن تھا کہاں کلام خود سے
میں کب کا خموش ہو چکا ہوں
٭٭٭
وقت کے ساتھ جتنا چلتا ہوں
عرصہِ عمر اتنا گھٹتا ہے
٭٭٭
اتنے حق دار آ نکلتے ہیں
جتنے حصوں میں کوئی بٹتا ہے۔
٭٭٭
جہاں تو ہو وہیں چھ±و لے تجھے اک ثانیے میں
تصور کے سوا کیا کوئی توسن تیز ہو گا
٭٭٭
گزر جائیں گے ہم دامن دریدہ ا±س گلی سے
ہمارا بھی جنوں اک دن قیامت خیز ہو گا۔
٭٭٭
میں سوکھتا جا رہا ہوں اس میں
کہنے کو ہرا بھرا چمن ہے
....٭٭٭
یہ اور بات کہ رہنا کہیں نصیب نہیں۔
جہاں بھی جاتا ہوں دیوار و در بناتا ہوں
٭٭٭
وہ وعدے وہ چاہتیں وہ یادیں
کھوئے ہیں نوواردات میرے
٭....٭....٭