یونان کے قریب سمندر میں گزشتہ دنوں جو کشتی ڈوبنے کا سانحہ پیش آیا وہ سمندری حادثات کے بدترین حادثات میں سے ایک ہے۔ غیر قانونی طور پر لاکھوں روپے خرچ کر کے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر ہر سال لاکھوں افراد دنیا بھر سے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انسانی سمگلنگ کا کاروبار ایک منافع بخش صنعت بن گیا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ غیر قانونی طریقوں سے یورپ جانے والوں کی اکثریت مسلم ممالک کے باشندوں کی ہے۔ ایشیا ہو یا عرب یا افریقہ مسلم ممالک کی معاشی بدحالی، خانہ جنگی اور حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے انسانی سمگلنگ کا کاروبار عروج پر ہے۔ افغانستان، پاکستان، شام، لیبیا، عراق، ایران ، مصر ، سوڈان ، نائیجیریا، مراکش، تیونس اور دیگر افریقی ممالک سے ہر سال ہزاروں افراد یہ خطرناک راہ اختیار کرتے ہیں جن میں سے سینکڑوں لوگ صحراﺅں، سمندر اور خطرناک پہاڑوں، جنگلات میں طرح طرح کے مصائب اور بھوک کے ساتھ موسمی سختیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے انجان راہوں میں ہی لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ ان کے گھر والوں کو شاید ہی ان کی موت کی اطلاع ملتی ہے۔ ان کے بے گورو کفن نعشیں دفنانے کی بھی زخمت نہیں کی جاتی کیونکہ سفر جاری رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ کہیں سرحدی محافظوں کی گرفت میں نہ آ جائیں۔ آج بھی صرف پاکستان میں کئی سو خاندان اپنے پیاروں کی زندگی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ ان کے پیارے زندہ بھی ہیں یا نہیں ہیں۔
یہ لوگ جو غیر قانونی طور پر یورپ کی طرف کوچ کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے 25 تا 30 لاکھ روپے ان درندہ صفت انسانی سمگلروں کو دئیے ہوتے ہیں جنہوں نے انہیں سنہرے مستقبل ، ڈالرز اور پا?نڈز کے خواب دکھائے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال ایسے کسی نہ کسی چھوٹے بڑے سانحہ کے بعد انتظامیہ حرکت میں آتی ہے۔ پکڑ دھکڑ ہوتی ہے۔ چند ایک سمگلر پکڑے جاتے ہیں جنہیں بعدازاں لے دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر انہیں کڑی سزا ملی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ پاکستان میں آزاد کشمیر، پنجاب اور خیبر پی کے سے بڑی تعداد میں لوگ غیر قانونی طریقے سے لاکھوں روپے فی کس دے کر یورپ جاتے ہیں۔ انسانی سمگلروں کے اندرون اور بیرون ملک وسیع رابطے ہوتے ہیں۔ ان کے مقامی ایجنٹ بھی شہر شہر گا?ں گا?ں پھیلے ہوتے ہیں جو نوجوانوں کو ان کے گھر والوں کو سبز باغ دکھا کر اس غیر قانونی فعل پر آمادہ کرتے ہیں۔ پھر کوئی بوڑھے والدین، کوئی جوان بہنوں، کوئی بیوی بچوں کی زندگی بہتر بنانے کی خاطر موت کی پ±رخطر راہوں کا مسافر بن جاتا ہے بچ جائیں تو تلخ حالات میں یورپ پہنچ جاتا ہے، جہاں چھپ چھپ کر ہزاروں تکلیف سہہ کر چند پیسے کما کر گھر والوں کو بھیجتا ہے۔ نصیب نے یاوری نہ کی تو راہ سفر میں ہی لقمہ اجل بن جاتا ہے یا پکڑے جانے پر برسوں جیل میں گزر جاتے ہیں۔اگر ہمارے ملک میں معاشی حالات بہتر ہوتے روزگار کی سہولتیں عام ہوتی تو یہ نوجوان انہی پیسوں سے یہاں بھی چھوٹا موٹا کاروبار کر کے زندگی بہتر بنا سکتے ہیں مگر قدم قدم پر رشوت اور رکاوٹیں اچھے بھلے انسان کا حوصلہ توڑ دیتی ہیں۔
گزشتہ دنوں جس کشتی میں 400 افراد کی بمشکل گنجائش تھی اس میں 750 سے زیادہ لوگ سوار تھے جن میں 100 کے قریب بچے اور درجنوں خواتین بھی شامل تھیں۔ یہ بدقسمت کشتی مصر سے یونان روانہ ہوئی اور مسلسل 6 دن چوری چھپے سفر کے بعد یونان کے قریب بوسیدگی کی وجہ سے ٹوٹ کر ڈوب گئی۔ جبکہ اسکا مصری مالک چھوٹی کشتی میں فرار ہو گیا۔
اس کشتی میں ترکی ، مصر ، شام، لیبیا، عراق اور افریقی مہاجرین سمیت 250 سے زیادہ پاکستانی بھی شامل تھے جنہیں بدسلوکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب سے نچلے حصے میں محبوس رکھا گیا تھا جو سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ یہ حصہ حادثے کے وقت لاک ہو گیا جس کی وجہ سے زیادہ تر پاکستانی ہلاک ہوئے۔ ابھی تک 450 مسافر لاپتہ ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں جبکہ 6 مسافر دوران سفر بھوک اور پیاس کی وجہ سے کشتی میں ہی تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ انسانی سمگلر کتنے ظالم ہیں جو لاکھوں روپے لے کر بہترین سفر کی آس دلا کر سینکڑوں افراد کی زندگی سے کھیلتے ہیں۔ پاکستان میں یہ لوگ بلوچستان کے راستے ایران پھر ترکی اور وہاں سے مختلف روٹس کے ذریعے جن میں زمینی اور سمندری راستے شامل ہیں انہیں یونان یا اٹلی پہنچایا جاتا ہے۔ یہ سب چھپ چھپ کر ہوتا ہے۔ بڑے بڑے بند ٹرالوں میں یا خشک بیاباں، صحرا میں یا پہاڑوں اور برفانی علاقوں میں اکثر مسافر مارے جاتے ہیں۔ کئی درندہ صفت سمگلر ان مجبوروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں انکی ویڈیوز بنا کر گھر والوں سے مزید رقوم طلب کرتے ہیں۔ ایسے درندہ صفت لوگ ناقابل معافی ہیں۔
اب حکومت نے ہر سانحہ کی طرح اس بار بھی وہی سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ کیا سوگ منانے سے یہ لوگ واپس آ جائیں گے۔ ان کے گھر والوں کے غموں ، دکھ اور درد کا مداوا ہو سکے گا۔ ہاں اشک شوئی کے لیے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے اگر ان خاندانوں کی کچھ مالی امداد کی جائے تو شاید ان کی تکالیف میں کمی آئے۔ بے شک اس سانحہ کے بعد سوگ منانا ضروری تھا۔ مگر ساتھ ہی ان عوامل کا بھی سراغ لگانا ضروری ہے جن کی وجہ سے ہمارے بچے ہمارے جوان بہتر مستقبل کی آس پر اپنی زندگیاں داﺅ پر لگاتے ہیں۔ جائز طریقے سے قانونی طریقہ کار کے تحت جانا جائز ہے۔ مگر جو لوگ انسانی سمگلنگ کا مکروہ کاروبار کرتے ہیں ان بدبختوں کو اب کڑی سزا دے کر ہی یہ مکروہ کاروبار بند کیا جا سکتا ہے۔