ادب انسانی زندگی کا ایک ایسا کینوس ہے جس پر تہذیب وتمدن کے نقش ہائے رنگ رنگ ابھرتے ہیں۔دنیاکے مہذب معاشرے علم پروری کی بنیادوں پرقائم ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں بڑی شخصیات کا فقدان ہے،اس کاایک سبب اندھی تقلیدبھی ہے،خرد افروزی سے معاشروں میں بلوغت پیداہوتی ہے۔افرادکے درمیان مکالمے کی فضا جنم لیتی ہے۔قیام پاکستان کے بعد ہمارے ہاں ادارہ ثقافت اسلامیہ ،اردو سائنس بورڈ،مغربی پاکستان اردو اکیڈمی،انجمن ترقی اردو، پاکستان، نیشنل بک فاﺅنڈیشن ،مقتدرہ قومی زبان،بزم اقبال،اقبال اکادمی اوراکادمی ادبیات پاکستان جیسے اداروں نے اپنے دائرہ کارمیں رہتے ہوئے کسی نہ کسی حدتک ان ذمہ داریوں کو پوراکیاہے۔حکومت پنجاب نے 1950ءمیں مجلسِ ترجمہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جس کا نام بعدمیں تبدیل کرکے مجلس ترقی ادب لاہور رکھ دیاگیا،سیدامتیازعلی تاج نے اس ادارے کے اغراض ومقاصدمیں کلاسیکی ادب کی اشاعت،ادب عالیہ کی تشکیل میں تعاون، عالمی ادب کے تراجم،بہترین کتابوں کے مصنفین کیلئے انعامات کا تذکرہ کیاہے۔ آغاز میں یہ ادارہ محکمہ تعلیم کی نگرانی میں تھا، اس علمی اور ادبی ادارے کے قیام کا کارنامہ ایک سپورٹس مین پروفیسر ڈاکٹر جہانگیرخان (معروف کرکٹرماجدخان کے والد)کے سر ہے،جن دنوں وہ ڈی پی آئی کالجزمغربی پاکستان تھے ،انھوں نے اس ادارے کے قیام کی اہمیت کوسمجھا۔اس زمانے میں ایک دارالترجمہ کی اشد ضرورت تھی۔غالب گمان ہے کہ بعدمیں اس کا دائرہ کاروسیع کرنے کے خیال سے اس کانام تبدیل کردیا گیاہوگا۔
مجلس ترقی ادب کے سربراہان میں کریم احمدخان، سیدامتیاز علی تاج ،حمیداحمدخان، احمدندیم قاسمی اور شہزاداحمد جیسی اہم ادبی شخصیات شامل رہی ہیں۔ان بزرگوں کی توجہ عام طورپرکلاسیکی متون کی اشاعت کی طرف مبذول رہی۔مجلس نے محدود وسائل دستیاب ہونے کے باوجود اردو کے کلاسیکی ادب پرمشتمل کتابیں (جن میں قدیم شعراکے دواوین،داستانیں ، ڈرامےاورتورایخ وغیرہ شامل ہیں) شائع کیں۔ مجلس ترقی ادب لاہور کے تحت کلاسیکی ادب پرشائع ہونے والی کتابوں کی مقدمات بڑے اہم تھے۔ ان کاوشوں سے نہ صرف اردو ادب کے شاندار ماضی کی بازیافت ممکن ہوئی بلکہ ریسرچ سکالرز کو مختلف موضوعات پر اچھی اورسستی کتابیں بھی میسر آئیں۔ ادارے کے سربراہان نے عام طورپراپنے مزاج کے مطابق اس کی جہتوں کا تعین کیا۔کریم احمدخاں کا تعلق سرشتہ تعلیم سے تھا اس لیے انکے عہد میں مجلس کے زیراہتمام شائع ہونےوالی کتابوں کا عمومی موضوع تعلیم اورنظام تعلیم رہا،سیدامتیازعلی تاج انارکلی کے حسن وجمال پرفریفتہ تھے،یہ کرداران کا تخلیق کردہ تھا،سوان کے دورمیں ڈرامے کی صنف کو خصوصی طور پراہمیت ملی،اس دورکی کتابیں زیادہ تر دوسری دفعہ شائع کی گئیں۔باقی سربراہان کے دور میں مختلف موضوعات پر مشتمل کتب شائع کی گئیں۔ 23 فروری 2021ءکو منصورآفاق کو اس ادارے کا سربراہ بنایاگیا۔انکے دورمیں تسلسل کے ساتھ یہ دعویٰ کیاجاتا رہا کہ اس ادارے کو ایک نیاجنم ملا، مجلس نے کتابوں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ ادبی عجائب گھر، چائے خانے کاقیام،نگارخانہ ،بک بلاک،نئی ویب سائٹ اورمختلف اداروں سے تعاون کی باہمی یادداشتوں پردستخط کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا۔ اس دور میں بہت سی کتابیں بھی شائع ہوئیں۔ عمومی طور پر انکے عہدمیں مجلس کی خالص علمی وادبی جہت سے انحراف کیاگیا،اس دورمیں یہ ادارہ ایک بیٹھک یا ڈیرہ لگتاتھا۔منصور آفاق ایک عمدہ شاعر ہیں ، ان کی ترجیحات میں شاعری کو اولیت حاصل رہی ہوگی۔ انھوں نے مختلف شاعروں کے اعزازمیں ادبی نشستوں، بڑے مشاعروں اورادبی کانفرنسوں کا انعقاد کیا ، احمدندیم قاسمی ان سے کہیں سینئر اورادبی لحاظ سے سیادت کے مقام پرفائزتھے ،انھوں نے مجلس کے تاسیسی اغراض ومقاصد سے ہٹ کرکوئی کام نہیں کیاتھا،قاسمی جانتے تھے کہ چائے خانے توشہرکی ہرگلی ہرموڑپرموجود ہیں،ادبی مجالس بھی جگہ جگہ منعقد ہوتی ہیں۔عوامی رابطے کیلئے ان کاسہ ماہی ”فنون “کا دفتر ہی کافی تھا۔اس لیے انھوں نے علمی وادبی کتابوں کی اشاعت کو ہی مجلس کا نصب العین بنائے رکھا۔ انکے دور میں مجلس کا ادبی جریدہ”صحیفہ “ بھی باقاعدگی سے علمی موضوعات پر مشتمل مضامین شائع کرتا رہا۔علم ودانش کا احیامجلس کا طرہ امتیاز تھا۔ آخری سربراہ کے دور میں تنقیدوتحقیق اور دیگر خالص موضوعات سے اغماض برتا گیا۔اس وقت میرے پیش نظر ”صحیفہ “کا جنوری 2022ءا شمارہ ہے۔
اس خصوصی شمارے میں ڈاکٹرحمیداللہ، مسعودعالم ندوی، ڈاکٹرنذیراحمد،ڈاکٹر جمیل جالبی ،مشفق خواجہ، ڈاکٹرحمیداحمدخاں، محمدکاظم اورڈاکٹروحیدقریشی جیسی ادبی شخصیات کے خطوط کوتوضیحات کے ساتھ شائع کیاگیاہے۔یہ ضخیم شمارہ شایدپہلے مرتب ہوچکاتھا، اس لیے رسالے کااداریہ ذرا انفعالی اندازمیں تحریر کیا گیاہے۔فرماتے ہیں:”اس رسالے کا نام ”صحیفہ“ اس لیے رکھاگیاتھا کہ اس میں وہ تحریریں شامل کی جائیںگی،جنھیں اہل قلم الہام کے دائرے میں شامل کرتے ہیں۔یعنی تخلیقی تحریریں،شاعری اور فکشن وغیرہ۔۔۔تمام لکھنے والوں سے التماس ہے کہ اپنے تخلیقی عمل کااظہار ”صحیفہ “کی وساطت سے کریں۔ ہم معذرت خواہ ہیں ان تمام پروفیسر صاحبان سے کہ ان کے وہ مضامین کہ جن کی اشاعت انکے ملازمت میں آگے بڑھنے کیلئے ضروری ہے۔ان کیلئے یونیورسٹیوں کے مجلوں کا انتخاب کریں“۔ ”اپنے کیے کرائے پرپانی پھیردینا“شایداسی کوکہتے ہیں۔یہ اس رسالے کا اداریہ ہے جس کی پیشانی پر مجلس مشاورت کے طورپرفتح محمدملک،خواجہ محمد زکریا،اسلم انصاری،توصیف تبسم اور سعادت سعید جیسے ماہرین تعلیم کے نام درج ہیں۔افسوس کہ اس طرح کی تحریریں ان ارباب ِ علم کی نگاہوں سے اوجھل رہیں۔مجلس ترقی ادب کے سربراہان میں امتیازعلی تاج مرحوم کوسیدعابدعلی عابد،کلب علی خان فائق اور خلیل الرحمٰن داﺅدی جیسے لوگوں کی ٹیم میسرآگئی تھی۔انکے عہد کی مرتبہ کتابیں نہ صرف پاکستان بلکہ ہندستان کے علمی حلقوں میں بھی مقبول ہیں۔ چندسال پہلے یہ بھی ہوا کہ باقرعلی شاہ سے مظفرعلی اسیر اور میاں دا دخان سیاح کے دیوان مرتب کروائے گئے لیکن بطور مرتب ان کا نام توسرورق پرکیا آنا تھا،ان کواس مرتبہ کام کااعزازیہ بھی نہ دیاگیا،البتہ بڑے احترام کےساتھ مخطوطوں کی پروف خوانی کی رقم انکے حوالے کردی گئی۔چند روزپہلے معروف شاعر عباس تابش کومجلس ترقی ادب کا نیا سربراہ بنایاگیا ہے۔عباس تابش ایک اہم شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ ماہرتعلیم بھی ہیں۔ان کی شخصیت مختلف خوبیوں کا مرقع ہے۔ ان سے توقع ہے کہ وہ اپنی سربراہی میں مجلس ترقی ادب کے بہترین مستقبل کیلئے انقلابی اقدام اٹھائیں گے۔ مجلس کے زیراہتمام علمی وادبی کانفرنسوں اور مشاعروں کااہتمام بھی کیا جائے لیکن اصل ضرورت یہ ہے کہ ادارے کاعلمی وتحقیقی امیج برقرار رکھا جائے۔مجلس ترقی ادب کے بنیادی مقاصد کی تکمیل ادارے کے سربراہ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے بہت سے شاعروں اورادیبوں کی تخلیقات اشاعت کی منتظرہیں۔ بہت سے علمی وادبی خزانوں کی بازیافت ہونا ابھی باقی ہے۔ عباس تابش کی سربراہی میں مجلس ترقی ادب جدید تقاضوں سے آشنا ایک اہم علمی وادبی ادارہ ہونا چاہیے۔امید کی جاتی ہے کہ اس ادارے کی کتابوں کی اشاعت اوران کی مارکیٹنگ کا عمدہ انتظام ہوگا۔اسکے علاوہ مجلس کی نئی اورپرانی کتابیں اسکی ویب گاہ پر آن لائن دستیاب ہوں۔ہمارے ادبی اداروں کواپنے اصل مقاصد کوسامنے رکھنا چاہیے۔ عباس تابش ہمارے عہدکے معتبرشاعر ہیں۔ میرا ان سے نیازمندی کا تعلق ہے،اسی نسبت سے ان کی شخصیت اورفن پرایک کالم ادھار رہا۔فی الوقت ان کا ایک شعر پیش خدمت ہے:
میں ہوں اس شہرمیں تاخیرسے آیاہواشخص
مجھ کواک اور زمانے میں بڑی دیرلگی