حکومتی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے قومی بجٹ پر تحفظات کے اظہار اور وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر کڑی تنقید سے حکمران اتحاد کیلئے اپنی بقاءکی آزمائش شروع ہو گئی ہے اور بلاول بھٹو کے بیان کے بعد حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں نے بھی اپنی حکومتی اتحادی پیپلزپارٹی کے ساتھ تنقیدی لب و لہجہ اختیار کرلیا ہے جس سے ملک میں ایک بار پھر سیاسی کشیدگی اور محاذآرائی کا ماحول گرم ہوتا نظر آرہا ہے۔ گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم کو بلاول کی وارننگ پر غم و غصہ کا اظہار کیا اور کہا کہ بجٹ دستاویز کی منظوری میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی حمایت شامل ہے‘ انکے اعتراضات کو دور کیا گیا تھا۔ انکے بقول قومی اقتصادی کونسل میں اتفاق رائے سے بجٹ منظور ہوا تو اب اعتراض کیوں؟ مرادعلی شاہ نے کچھ منصوبوں کے فنڈز میں اضافہ بھی کرایا۔ کابینہ میں بھی بجٹ کی منظوری دی گئی جبکہ بجٹ کی تیاری میں بھی تمام اتحادیوں کو شامل کیا گیا۔ اب جلسوں میں کھڑے ہو کر شکوے شکایات کرنے اور وارننگ دینے سے سیاسی بے یقینی کی فضا پیدا ہو گی۔ احسن اقبال نے یہ بھی باور کرایا کہ اگر مسلم لیگ (ن) صورتحال نہ سنبھالتی تو ملک ڈیفالٹ ہو جاتا۔ بلاول بھٹو کو بات کابینہ میں کرنی چاہیے۔ دو روز قبل بلاول بھٹو زرداری نے ایک جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم اور وفاقی وزیر خزانہ کو چیلنج کیا تھا کہ اگر بجٹ میں انکے تحفظات دور نہ کئے گئے اور ہمارے ساتھ کئے گئے وعدے پورے نہ کئے گئے تو پھر وہ اسمبلی میں بجٹ منظور کرکے دکھائیں۔
سیاسی جماعتوں میں سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر اختلاف رائے ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ انتخابات میں عوام کے پاس جانیوالی جماعتوں کا اپنا اپنا منشور اور حکومتی پلان ہوتا ہے جس کے باعث عوام کو بھی اپنی مستقبل کی قیادت کیلئے اپنے اور ملکی مفادات کے تناظر میں چناﺅکرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ تاہم سیاسی اختلافات رائے کو ذاتی اختلافات اور دشمنی کا رنگ دینے سے ملک میں انتشار اور سیاسی عدم استحکام کی راہ ہموار ہوتی ہے تو اس سے سسٹم پر زد پڑنے کا بھی اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے اور ملک کے بدخواہ اندرونی و بیرونی عناصر کو بھی ملک کی سلامتی کیخلاف اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی حکومتی اتحادی پی ڈی ایم کا حصہ نہ ہونے کے باوجود اس اتحاد کے ساتھ حکومت میں شامل ہوئی جس کی حکومت میں اپنی اتحادی مسلم لیگ (ن) جتنی ہی نمائندگی ہے تو وہ حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں سے اپنی برئیت کا اظہار تو نہیں کر سکتی چنانچہ اسکے قائد بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے پیپلزپارٹی کی رضامندی کے ساتھ تیار ہونیوالے بجٹ پر تحفظات کے اظہار اور اپنے تنقیدی نشتروں کا رخ وزیراعظم اور وزیر خزانہ کی جانب کرنے سے اس تاثر کو ہی تقویت مل رہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی اپنی حکومتی اتحادی مسلم لیگ (ن) سے دامن چھڑانے اور اپنے الگ پروگرام اور منشور کے تحت عوام کے پاس جانے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ ممکن ہے پیپلزپارٹی پی ڈی ایم میں شامل اور اس سے باہر بعض دوسری جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد بھی بنا لے اور مسلم لیگ (ن) اپنے الگ پلیٹ فارم سے انتخابی میدان میں اترے جس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں تاہم پی ٹی آئی کی بلیم گیم کی ڈسی ہوئی ان دونوں جماعتوں کو بلیم گیم کی سیاست سے بہرحال گریز کرنا چاہیے۔
بدقسمتی سے 90ءکی دہائی میں بھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ محاذآرائی کی سیاست میں بلیم گیم کا راستہ اختیار کیا جس سے غیرجمہوری قوتوں کو ماضی کی طرح جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا موقع ملا۔ میاں نوازشریف کی دو حکومتیں اسی سیاست کی بھینٹ چڑھیں اور اسی طرح بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بھی بلیم گیم کی اسی سیاست کی بنیاد پر دو بار صدر کے دفعہ 58 اور اسکی ذیلی دفعات (2)بی کی زد میں آکر گھر جانا پڑا۔ بعدازاں یہی دو جماعتیں بحالءجمہوریت کی جدوجہد میں اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر باہم متحد ہوئیں اور پھر انکی قیادتوں نے اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر ہی میثاق جمہوریت کیا اور کسی منتخب جمہوری حکومت کو گرانے کیلئے ماورائے آئین اقدام والوں کو اپنا کندھا فراہم نہ کرنے کا عہد کیا۔ اور میاں نوازشریف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنی بہن کا درجہ دے دیا جس کا انہوں نے بے نظیر بھٹو کی شہادت پر انکے خاندان کے سوگ میں شریک ہو کر اعادہ بھی کیا۔
اسی جذبے کے تحت مسلم لیگ (ن) 2008ءکی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے ساتھ شریک اقتدار بھی ہوئی تاہم اس حکومتی اتحاد کی زیادہ دیر تک نہ نبھ سکی اور مسلم لیگ (ن) اقتدار سے الگ ہو گئی البتہ اس نے پیپلزپارٹی کی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار نبھانا شروع کر دیا جو 2013ءکی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیخلاف پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی نبھایا گیا۔ اس طرح جمہوریت کی گاڑی ٹریک پر چڑھی اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہی۔
اسی دوران تحریک انصاف ایک مضبوط اپوزیشن پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی اور جب پی ٹی آئی قائد نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ مل کر حکومت مخالف لانگ مار اور دھرنا کی سیاست کا آغاز کیا تو حکومتی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے علاوہ پیپلزپارٹی نے بھی اس سیاست کی مخالفت اور مزاحمت کی۔ بلیم گیم کی سیاست کو درحقیقت پی ٹی آئی نے ہی اپنے ایجنڈے کے تحت تقویت پہنچائی اور اسی سیاست کے ماتحت ریاستی اداروں کو بھی رگیدنا شروع کردیا۔ وہ 2018ءکے انتخابات کے نتیجہ میں اقتدار میں آئے تو انہوں نے اپنے مخالفین کے خلاف بلیم گیم کی سیاست مزید تیز کر دی جس کے باعث مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر باہم متحد ہوگئیں۔ تاہم اس اتحاد کی تشکیل کے ایک سال بعد ہی ایسے ہی عذر نکال کر جس طرح اب چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو بجٹ پر تحفظات کا اظہار کرکے حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کے عذر نکال رہے ہیں‘ پیپلزپارٹی اور اے این پی نے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
بلاول بھٹو کی یکدم شروع ہونیوالی سیاسی سرگرمیوں اور انکے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ محاذآرائی کے عندیے سے یہ امر تو واضح ہو رہا ہے کہ حکومت اکتوبر میں عام انتخابات کے فیصلہ پر کاربند ہے چنانچہ اگست کے دوسرے ہفتے کے دوران موجودہ اسمبلی کی پانچ سال کی آئینی میعاد پوری ہونے پر نگران سیٹ اپ تشکیل پا جائیگا۔ یقیناً اسی تناظر میں پیپلزپارٹی کی قیادت اپنے الگ سیاسی تشخص کے تحت انتخابی میدان میں اترنے کا فیصلہ کر چکی ہے جس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہو سکتا۔ تاہم پیپلزپارٹی کی قیادت بالخصوص آصف علی زرداری کو بلیم گیم اور محاذآرائی کی سیاست سے ماضی میں خود انکی پارٹی اور سسٹم کو پہنچنے والے نقصان کو پیش نظر رکھ کر اپنی پارٹی کو انتخابی میدان میں اتارنا چاہیے۔ بصورت دیگر انکی اور پی ٹی آئی کی سیاست میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔