ملک میں الیکشن سے قبل سیاسی تناؤ اس قدر زیادہ ، معاشی صورتحال دگرگوں اور شہریوں کے روزمرہ کے مسائل اس قدر گھمبیر تھے ، اس کیفیت کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ نئی منتخب حکومت کے لئے یہ چیلنجز ہمالیہ کی طرح بلند ہی رہیں گے۔جس کو عبور کرنا بلاشبہ سہانا خواب محسوس ہوتا تھا اسکو حل یا کم کرنے کے لئے محنت سے زیادہ لگن،جذبے اور ملک کی محبت اور عوام کے دل کا درد رکھنا بہت ضروری تھا۔الیکشن میں مینڈیٹ حاصل کرنے والی جماعت مسلم لیگ ن نے یہ ذمہ داری وفاق اور ملک سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں خود اٹھائی۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے قوم کا حوصلہ بڑھایا اور حالات بہتر ہونے کی نوید سنائی۔ملک کے تین بار کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کی سیاسی درسگاہ سے فارغ التحصیل مریم نواز نے پنجاب کی وزیر اعلی منتخب ہو کر مسائل کو حل کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور صوبے کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے نئے سفر کا آغاز کیا۔ اس کے لئے انہوں نے اپنی بہترین ٹیم کا انتخاب بھی کیا عوامی مسائل روٹی کپڑا اور مکان تو ہیں ہی مگر قانون کی عملداری سب سے اہم چیلنج ہے قانون پر عملدرآمد کروانے میں جس فورس کا نام پہلے آتا ہے وہ پولیس کا محکمہ ہے جس میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور شبانہ روز محنت میں مصروف ہیں۔ یہ کام وہ اکیلے نہیں کرسکتے اس کے لیے وزیر اعلیٰ کا اعتماد اور آئی جی کی اپنی ٹیم کا بہترین کمبی نیشن ضروری ہے جس میں وزیر اعلیٰ علاقے کے مسائل کے حل کے لئے موزوں ترین قابل پولیس افسران کا ڈویژن اور اضلاع میں تعیناتیاں کرتے ہیں۔
جنوبی پنجاب محرومیوں کا شکار رہا ہے، اپوزیشن کے سیاست دان اکثر یہ کارڈکھیلتے رہے ہیں ۔اسی لئے اب جنوبی پنجاب کے علاقوں میں انتظامی تعیناتیاں بڑے سوچ بچار کے بعد کی جاتی ہیں تاکہ برابری کے حقوق کا نعرہ ہر جگہ لگے۔ملتان چونکہ جنوبی پنجاب کا اہم ڈویژن ہے تو یہاں کیپٹن ریٹائرڈ سہیل چودھری کو آر پی او لگایا گیا ہے جو اپنی ٹیم سے بہترین کام لے رہے ہیں اور خود بھی ہر جگہ متحرک نظر آتے ہیں۔ملتان ڈویژن سے منسلک ضلع خانیوال میں ایک ماہ قبل تعینات ہونے والے ڈی پی او ایس ایس پی اسمٰعیل الرحمن کھاڑک ایک محنتی اور انتہائی پروفیشنل پولیس آفیسر ہیں۔ اس سے قبل انکی مختلف اضلاع میں بطور ضلعی پولیس افسرتعیناتی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جس علاقے میں بھی وہ رہے وہاں کرائم کو اتنا نیچے لے گئے کہ شہریوں کوڈاکوؤں ،چوروں،راہزنوں اور نوسربازوں کی لوٹ مارسے بہت حد تک نکال لیا۔صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایس ایس پی آپریشنز کی ذمہ داریاں بھی بخوبی ادا کر چکے ہیں اور سی پی او آفس میں لاجسٹک افسر کی ذمہ داریاں بھی ادا کی ہیں۔خانیوال میں تعینات ہونے کے ایک ماہ کے اندر ون فائیو 15 پر ہونے والی ڈکیتیوں کی کالز میں 75 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔انہوں نے ایک اہم کام یہ کیا کہ عرصہ دراز سے ایک ہی جگہ پر کام کرنے والے چار سو سے زائد پولیس ملازمین،افسران کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ کیا اور پولیس لائن میں فارغ بیٹھے ملازمین کو کام کی ذمہ داریاں تفویض کی ہیں۔اس ا قدام سے پولیس تھانوں میں نفری بڑھی اور پولیس کی گشت کی ٹیموں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
وزیر اعلی پنجاب اور آئی جی پنجاب کی ہدایت پر کھلی کچہریوں کے انعقاد کو مزید موثر انداز میں شروع کیا ہے۔مساجد میں بھی بیٹھ کر وہ مسائل حل کرتے نظر آتے ہیں۔ضلع کی سطح پر شکایت کے تدارک کے پائیدار حل کے لیے دس پولیس آفیشل کو تعینات کیا ہے جو ون فائیو کی کال اور وزیرِ اعلیٰ شکایت سیل پرانے والی کال کے رسپانس، فرنٹ ڈیسک اور ایف آئی آر کے لیے آنے والے سائل سے فیڈ بیک لیکر ریکارڈ مرتب کرتے ہیں۔جس کا مقصد رشوت ستانی کا خاتمہ،میرٹ پر تفتیش اور تحقیقات کرنا ہے تاکہ سائل کے ساتھ مکمل انصاف ہوتا نظر آئے۔ڈی پی او آفس کے دروازے سائلین کے لیے ہر وقت کھلے نظر آتے ہیں۔انہوں نے ایک ماہ ڈی پی او آفس میں سات سو اکہتر شکایات میں زیادہ تر کا تدارک کیا ہے اقدام قتل،اور قتل کے ملزمان کی گرفتاریاں کی ،اشتہاریوں کی گرفتاریاں عمل میں لائیں جارہی ہیں اس کے علاوہ ٹرانس جینڈر کے مسائل کوترجیحی بنیادوں پر حل کیا جارہا ہے۔ڈی پی او اسمعیل الرحمن کھاڑک رات کو سرپرائز وزٹ کے ذریعے تھانوں ،پٹرولنگ اور دیگر ڈیوٹیوں کی چیکنگ خود کرتے ہیں ان اقدام کا مقصد شہریوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا اور شہریوں کو پولیس پر اعتماد کی بحالی کرنا بھی ہے ۔ اگر پنجاب پولیس کا ہر رکن عوامی خدمت کو اپنی ڈیوٹی سمجھ کر ادا کرے تومعاشرے میں امن کا خواب تعبیر پا کر رہیگا ۔