اس عید الاضحی کے موقع پر بالخصوص پنجاب کے بڑے شہروں میں صفائی کے لیے گئے انتظامات بہت اچھے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ تمام چھوٹے بڑے شہروں اور دیہات میں عید الاضحی کے موقع پر ماحول تعفن زدہ نہیں تھا۔ گذشتہ پانچ چھ برسوں میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ قربانی کے موقع پر انتظامیہ اس انداز میں حرکت میں نظر آئی۔ اس عید الاضحی پر صفائی ستھرائی کے معاملے میں حکومت جس انداز میں متحرک رہی اور متعلقہ ادارے کام کرتے ہوئے نظر آئے اس کا مطلب یہ ہے کہ افرادی قوت بھی موجود ہے، وسائل بھی موجود ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ صوبے بھر میں صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے وسائل بھی موجود ہیں لیکن اس صلاحیت اور وسائل کو بروئے کار نہیں لایا گیا، ان وسائل سے فائدہ اٹھایا نہیں گیا، ہو سکتا ہے یہ سب ادارے اور ان کے ملازمین مفت کی تنخواہیں وصول کرتے ہوں اور کام کسی اور کے لیے کرتے رہتے ہوں۔ بہرحال کچھ بھی کہیں لیکن اس عید قرباں پر حکومت پنجاب صوبے کو صاف رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی قیادت میں صوبے کو صاف رکھنے، منصوبہ بندی کرنے، حکمت عملی تیار کرنے، انتظامیہ کو متحرک رکھنے اور بروقت بہتر فیصلے کرنے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ریاست اگر چاہے تو ہر خرابی اور برائی پر قابو پا سکتی ہے، ریاست ہی سب سے موثر اور مضبوط ہے ۔ ریاست کے اندر کچھ بھی غلط ہوتا ہے تو پھر یا تو یہ حکمرانوں کی مرضی سے ہوتا ہے یا پھر حکمرانوں کی کم علمی سے ہوتا ہے یا پھر نظام میں موجود خرابیوں پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عام آدمی کے مسائل میں عدم دلچسپی کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس عید قرباں پر وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر ریاست اصلاح کرنا چاہے تو اس کے لیے کچھ بھی مشکل یا ناممکن نہیں ہے ۔ یقینا مریم نواز کی اس کامیابی میں ان کے والد میاں محمد نواز شریف کی رہنمائی اور مشاورت شامل ہو گی کیونکہ وہ اس صوبے کی وزارت اعلیٰ سے وزارت عظمیٰ تک پہنچے ۔ اس اعتبار سے ان کے پاس انتظامی حوالے سے وسیع تجربہ موجود ہے، کس ادارے کو کیسے متحرک رکھنا ہے، کس افسر سے کہاں کیا کام لینا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں، بیوروکریسی میں افسران کو دہائیوں سے جانتے ہیں، بیوروکریسی کے کام کرنے کا کیا طریقہ ہے وہ اس سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ یہ ساری چیزیں بھی مریم نواز کے حق میں جاتی ہیں۔ بہرحال جیسے بھی ہوا ہے مریم نواز عید کے ایام میں خود کو ایک بہتر ایڈمنسٹریٹر کے طور پر منوانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ وہ سیاحتی مقام کو مری کی بحالی کے منصوبے پر بھی کام کر رہی ہیں جب کہ اداروں اور وزارتوں میں اصلاحات کے منصوبے پر بھی کام کر رہی ہیں۔ ڈاؤن سائزنگ ہو یا رائٹ سائزنگ جو بھی ہو اس ملک کے بہتر مستقبل کی خاطر سیاسی مفادات کو قربان کرنا پڑے گا۔
عید الاضحی کے موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے خبردار کر دیا تھا کہ غفلت اور کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ پنجاب میں آلائشیں اور صفائی نہ ہونے کی شکایت ملی تو فوری کارروائی ہو گی۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کے افسران اور ٹیموں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کو صاف رکھنے کے لیے ذمہ داری نبھانے والوں کے جوش و جذبے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ شدید گرمی میں آلائشیں ٹھکانے لگانے پر کمپنی اور عملے کا جذبہ، پنجاب کے شہروں، تحصیلوں میں انتظامیہ اور منتخب نمائندوں کی خدمات قابل تعریف ہیں، عید پر صفائی ستھرائی شہریوں کی سہولیات کیلئے حکومتی مشینری کی نگرانی کر رہی ہوں۔ پنجاب میں جہاں شکایت ملی فوری کارروائی ہوگی، غفلت اورکوتاہی برداشت نہیں، فرض پورا نہ کرنے والے سزا کیلئے تیار رہیں۔ حکومت پنجاب نے سختی کی، کام لیا اور کام کے بعد فوری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب نے صفائی عملے کو ایک ماہ کی تنخواہ بطور انعام دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے مثالی خدمت کرکے ستھرا پنجاب کی نئی تاریخ رقم کی، شدید گرمی میں عوام کی خدمت قابل تعریف اور قابل فخر ہے۔ وزیر اعلیٰ نے میونسپل اداروں، ویسٹ منیجمنٹ کمپنیوں کے افسران اور عملے کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔ منتخب نمائندوں، میڈیا اور عوام کا بھی شکریہ جنہوں نے اداروں کا ساتھ دے کر صفائی مہم کو کامیاب بنایا۔
جس انداز میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف، سینئر وزیر مریم اورنگزیب اور وزیر اطلاعات عظمی بخاری نے چند ہفتوں کے دوران کام کیا ہے انہوں نے گذرے پانچ برسوں میں پنجاب میں حکومت کرنے والوں کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ عید قرباں کے دو روز میں ایک لاکھ چھتیس ہزار ٹن آلائشوں کو ٹھکانے لگایا گیا ہے۔ پچاس ہزار سے زائد ورکرز فیلڈ میں موجود رہے، گندگی اور بدبو سے بچنے کے لیے صوبے میں پہلی بار سڑکوں کو عرق گلاب اور فینائل سے دھویا جاتا رہا۔ یہ سب کام ماضی کے حکمران بھی کر سکتے تھے لیکن انہوں نے باتوں کے سوا کچھ نہیں کیا۔ عید الاضحی کے دنوں میں ہزاروں شکایات حل کیں، صوبے کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے خصوصی کمیپس لگائے گئے اور ان کیمپوں کے ذریعے صوبے کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے کام کیا گیا۔
اس کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف عیدالاضحیٰ کے موقع پر امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے سیکیورٹی انتظامات کا بھی جائزہ لیتی رہیں۔ اس دوران لاہور میں دفعہ 144 نافذ رہی جس کے تحت جانوروں کی آلائشیں نہروں، نالوں میں پھینکنے پر پابندی عائد تھی۔ سری پائے بھوننے کے غیر قانونی کاروبار پر دفعہ 144 کے تحت پابندی عائد کی گئی، صوبائی، ڈویژنل، ضلعی اور تحصیل لیول کنٹرول روم فعال کرنے کاحکم بھی دیا گیا ہے۔ 2600 مساجد اور 900 عید گاہوں پر سکیورٹی کے انتظامات پر رپورٹ پیش کی گئی، اجلاس میں سکیورٹی انتظامات کے ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنانے کا حکم دیا گیا۔ پارکس میں بچوں کیلئے جھولوں اور سلائیڈز کی انسپکشن کا بھی حکم دیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور سروے میں مریم نواز کی مقبولیت کے سوال پر ساٹھ فیصد نے کہا کہ تین ماہ میں ان کی مقبولیت بڑھی ہے۔ سینتیس فیصد نے اس سوال کا ’ناں‘ میں جواب دیا۔ سروے میں ترپن فیصد افراد نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کیلئے حکومتی اقدامات کو مؤثر قرار دیا جبکہ چونتیس فیصد نے غیر مؤثر اور تیرہ فیصد نے کوئی رائے نہیں دی۔ چوالیس فیصد نے پنجاب حکومت کے روٹی کی قیمت میں کمی کے فیصلے کو سراہا جبکہ 11، 11 فیصد نے موبائل کلینک اور سولر پروگرام کی تعریف کی۔ یہ وہ تمام پہلو ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اگر کچھ کرنا چاہے تو اس کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ اگر حکومت انتظامیہ کو متحرک کر کے صفائی ستھرائی کو یقینی بنا سکتی ہے تو پھر حکومت مہنگائی پر قابو کیوں نہیں پا سکتی، کیوں جان بچانے والی ادویات یا تو مہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں یا پھر ان کی قلت ہوتی ہے ، کیوں ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے، کیوں حکومت ، انتظامیہ اس شعبے کو چلانے والوں کے سامنے بے بس ہوتی ہے، کیوں عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے عید الاضحی کے موقع پر صوبے کو صاف ستھرا رکھنے کے جذبے کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا، کیوں چینی غیر حقیقی قیمتوں پر فروخت ہوتی ہے، کیوں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں استحکام نہیں آتا۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے مسائل میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، تنخواہ دار طبقہ مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے، حکومتی اقدامات سے آمدن و اخراجات میں کوئی توازن نہیں رہا، حکومت اور کچھ نہیں تو کم از کم کھانے پینے کی اشیاء کے معاملے اولین ترجیح دے، ان اشیاء کی قیمتوں کو قابو میں لانے کے لیے کام کرے اور شہریوں کی زندگی میں آسانی پیدا کرے۔ کیوں وسائل سے محروم طبقے کو ناجائز منافع خوروں اور مافیا کے سپرد کر دیا گیا ہے ، جن لوگوں نے شہر اور صوبے کو صاف رکھا ہے کیا ان لوگوں اور ان جیسے کروڑوں افراد کا یہ حق نہیں کہ حکومت ان کی زندگی میں سہولت پیدا کرنے کے لیے کام کرے۔ لوگوں سے کام لینے کے لیے، شہریوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے انہیں بہتر ماحول فراہم کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت مہنگائی کے معاملے میں بہتر فیصلے کرتی ہے یا نہیں۔
آخر میں اقبال ساجد کا کلام
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
تاریخ کربلائے سخن! دیکھنا کہ میں
خون جگر سے لکھ کے ورق چھوڑ جاؤں گا
اک روشنی کی موت مروں گا زمین پر
جینے کا اس جہان میں حق چھوڑ جاؤں گا
روئیں گے میری یاد میں مہر و مہ و نجوم
ان آئنوں میں عکس قلق چھوڑ جاؤں گا
وہ اوس کے درخت لگاؤں گا جا بہ جا
ہر بوند میں لہو کی رمق چھوڑ جاؤں گا
گزروں گا شہر سنگ سے جب آئنہ لیے
چہرے کھلے دریچوں میں فق چھوڑ جاؤں گا
پہنچوں گا صحن باغ میں شبنم رتوں کے ساتھ
سوکھے ہوئے گلوں میں عرق چھوڑ جاؤں گا
ہر سو لگیں گے مجھ سے صداقت کے اشتہار
ہر سو محبتوں کے سبق چھوڑ جاؤں گا
ساجد گلاب چال چلوں گا روش روش
دھرتی پہ گلستان شفق چھوڑ جاؤں گا