نئی ایجاد، شرطیہ نئی

تو جناب، ایک عید قرباں اور گزر گئی۔ لاکھوں نے قربانی کی، کروڑوں نہیں کر سکے۔ جن لوگوں نے قربانی کی ، ان میں سے کتنوں کی قربانی قبول ہوئی ہو گی؟۔ یہ ہم اور آپ کیسے بتا سکتے ہیں کہ دلوں کا حال تو خدا ہی جانتا ہے۔ لیکن ایک نکتے کی بات بتائیں؟۔ یہ کہ جن کی قبول نہیں ہوئی، انہیں پتہ ہے کہ ان کی قربانی قبول نہیں ہوئی، قبول ہونے کا سوال ہی نہیں تھا، انہیں یہ بھی پتہ تھا۔ 
مثلاً جن لوگوں نے پانچ لاکھ، دس لاکھ کے بکرے لئے، 50 لاکھ کی گائے لی، ایک کروڑ کے بیل اور اونٹ لئے، پھر انہیں کپڑوں سے سجایا، پھر ان کا جلوس نکالا، محلے اور علاقے والوں کو بتلایا اور جتلایا کہ دیکھو، ہمارے پاس کتنی دولت ہے، ارے ہم تو کرنسی نوٹ جلا کر چائے بنائیں ، پھر انہوں نے قربانی بھی کی، اس حالت میں کہ انہیں اچھی طرح پتہ تھا کہ قربانی کی نیت تو ان کی تھی ہی نہیں، وہ اپنے ’’اْچّا‘‘ ہونے کا اعلان کر رہے تھے۔ اسیں اچّے ، ساڈی ذات اچّی۔ انہوں نے بہتوں کا دل دکھایا، یہ اضافی عذاب بھی کمایا۔ 
پھر وہ جنہوں نے قربانی کا گوشت بانٹا۔ ایک ران کسی اونچے افسر، اپنے ادارے کے باس کے گھر بھجوائی، دوسری علاقے کے بااثر سیاستدان ، رکن اسمبلی، وزیر یا وڈیرے کے گھر بھجوائی تاکہ حاضری لگ جائے، سو حاضری لگ گئی، قربانی اسی حاضری میں تلف ہو گئی۔ 
اور وہ جنہوں نے ایک سے زیادہ جانور خریدے اور گوشت ذخیرہ کرنے کیلئے نئے فرج خرید کر گھر لائے۔ پیٹ پوجا اور نمود و نمائش ایک ساتھ، بیچ میں خدا کی پوجا کیلئے گنجائش ہی نہ بچی۔ 
کوئی غریب بیوہ گلیوں میں صاف صفائی کرنے والا، فقیر، یتیم ، مسکین گوشت مانگنے آ گیاتو یا تو اسے دھتکار دیا یا مٹھی بھر چھیچھڑے دے کر فرمایا چل اب دفع بھی ہو۔ 
تو ان سب کو اور ان جیسے دوسروں کو پتہ ہے کہ ان کی قربانی قبول نہیں ہو گی اور مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں قربانی قبول نہ ہونے کی پروا بھی نہیں، جو کچھ اب کیا، وہی سب اگلی قربانی پر بھی کریں گے۔ ان میں سے کئی حج اور عمرے پر بھی جاتے ہیں، اس خانہ ساز عقیدے کیساتھ کہ اس سے اب تک کے سارے گناہ معاف اور نئے گناہوں کا ’’کوٹہ‘‘ وافر مقدار میں مل جائے گا۔ 
______
ایجادات کا سلسلہ کرہ ارض پر انسان کی آمد کے ساتھ ہی سرگرم ہو گیا تھا۔ پہلی ایجاد ڈنڈا تھا جو انسان نے کسی درخت کی شاخ کو توڑ کر بنایا تھا تاکہ دوسروں کا سر پھوڑا جا سکے۔ یہ ڈنڈا بہت مفید ایجاد ثابت ہوا اور اس سے شرح پیدائش اور شرح اموات میں توازن برقرار رکھنے میں بڑی مدد ملی۔ کئی ہزاریوں تک ایجادات کا سلسلہ کچھ اس رفتار سے جاری رہا کہ ایک چیز ایجاد ہوئی، پھر دو تین صدیاں گزریں، ایک اور شے ایجاد ہو گئی۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے ایجادات ہونے کی رفتار بڑھنے لگی، اٹھارہویں انیسویں صدی میں اتنی ایجادات ہو گئیں کہ شاعر چلّا اْٹھا
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔
لیکن شاعر کو کیا پتہ تھا کہ یہ تو محض ہوا کا ہلکا سا ہلکورہ ہے، ایجادات کا سونامی تو ابھی آنا ہے۔ 1970ء کے بعد ایجادات کی لائن لگنا شروع ہوئی اور اب تو یہ عالم ہے کہ ایجادات بارش کی طرح برس رہی ہیں، ان پر نظر ہی ٹھہر نہیں رہی۔ 
لیکن کچھ ایجادات نظروں میں ٹک جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک ایجاد کا نام چاہت فتح علی خاں ہے۔ بڑی زبردست، آنکھوں کو چندھیا کر دینے والی، حیرت کی بات ہے، اس ایجاد کے موجد کا نام ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ 
تین چار روز پہلے ایک چھوٹی سی خبر نے چونکا دیا۔ چاہت فتح علی کو چاہنے والے یعنی عرف عام میں فالوورز حضرات کی تعداد اسی طرح کی ایک اور ایجاد یعنی بڑے خاں صاحب سے بھی بڑھ گئی۔ 
بڑے خاں صاحب لگ بھگ اڑھائی تین عشرے پہلے ایجاد ہوئے تھے۔ پاکستان کو ایٹمی ہتھیار بنانے میں ڈیڑھ عشرہ لگا، اس ایجاد کو پایہ عروج تک پہنچانے میں تیس نہیں تو 25 سال ضرور لگ گئے۔ کیسے کیسے سائنس دان اس ایجاد میں خرچ ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ اس ایجاد کے بابائے پراجیکٹ سیاسی کوانٹم فزنس کے سب سے بڑے سیاستدان ’’ڈاکٹر پاشا‘‘ تھے۔ پھر ان سے بھی بڑے سائنس دان، جدید بیالوجی کے ڈارون ڈاکٹر ظہیر آئے، آخر میں کیمیا کی ہتھیاروں کی باجوہ لیبارٹری نے چکوال کے چشمہ فیض کے بھاری پانی سے اس ایجاد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ 
یہ کم از کم پاکستان کی مقبول ترین ایجاد تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ چاہت فتح علی خاں کی ایجاد پر بہت کم محنت لگی لیکن وہ مقبولیت میں آگے نکل گئی۔ شاید اس ایجاد کی افادیت زیادہ ہو گی۔ بہرحال، بڑے خاں صاحب کے موجدین کی تفصیل اور ریکارڈ سب موجود ہے، چاہت فتح علی کو منصّہ شہود پر لانے والے خود ابھی تک منصّہ غیابت میں چھپے ہوئے ہیں، 
نواز شریف ’’تصویر درد‘‘ بن کر سیاسی منظرنامے سے بظاہر ریٹائر ہو چکے، بلاول کے وزیر اعظم بننے کی دور دور تک امید نہیں، مریم نواز ابھی حکمرانی کے تربیتی مرحلے میں ہیں ، چنانچہ اگلا وزیر اعظم ان تینوں میں سے کوئی نہیں ہو گا، پھر تو اسی ایجاد چاہت فتح علی کا نام ہی رہ جاتا ہے۔ 
وہ لوگ چنانچہ، فائدے میں رہیں گے جو ابھی سے ٹکٹ کی درخواستیں چاہت خانے میں جمع کرا دیں گے۔ 
______
خبر ہے کہ پولیس نے گھوٹکی میں کچے کا ایک ڈاکو مار دیا۔ ضرور کوئی غلط فہمی والی خبر ہے۔ پاکستان کی حکومت اور ریاست میں کون ایسا مائی کا لال ہے جو کچے کے ڈاکوئوں پر میلی نظر ڈال سکے۔ اس فیک نیوز پر کارروائی ہونی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن