نام سیکولر کام نان سیکولر

عالمی تناظر میں سال 2024ء کو دنیا کے بعض ممالک میں عام انتخابات کا سال قرار دیا گیا ہے۔ دنیا کے 64 ممالک میں جن میں کثیرالآبادی والے ممالک بنگلہ دیش‘ برازیل‘ انڈونیشیا‘ میکسیکو‘ روس‘ امریکہ‘ بھارت اور اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی شامل ہیں‘ عام انتخابات ہو چکے یا اسی سال ہونے جا رہے ہیں جبکہ برطانیہ کے عام انتخابات میں اب صرف 14 دن باقی رہ گئے ہیں۔ برطانوی انتخابات میں رائے دہندگان کے ووٹ ڈالنے کی اس مرتبہ پالیسی کیا ہوگی‘ 3 بڑی سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں قدرے چھوٹی سیاسی پارٹیاں کیا اپنا ٹارگٹ حاصل کر پائیں گی؟ ان پر انشاء اللہ آئندہ ’’ولایت نامہ‘‘ میں۔ آج آپ کو بھارت میں گزشتہ ہفتے مکمل ہونیوالے انتخابات اور ان انتخابات میں تیسری مرتبہ منتخب کئے جانے والے وزیراعظم نریندر مودی اور اسکی سیاسی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے بری طرح گرے گراف کے حوالہ سے یکسر بدلتی صورتحال کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔ اب جبکہ بی جے پی کے رہنماء نریندر مودی وزارت عظمیٰ پر فائز ہو چکے ہیں۔ بھارتی سیاست میں ہی نہیں‘ لوک سبھا حکومت سازی کے عمل میں بھی واضح تبدیلی نظر آنے لگی ہے۔ 
سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ بھارت میں اس مرتبہ حکومت کا قیام کس طرح عمل میں لایا گیا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارتی جنتا پارٹی کی قیادت میں تشکیل دیئے جانے والے انتخابی اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس نے اسمبلی کی 543 میں سے 293 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ مودی کا ’’400پار‘‘ کا انتخابی نعرہ بھی بی جے پی کو بحیثیت مرکزی پارٹی کامیابی سے ہمکنار نہ کرا سکا۔ بنیادی طور پر بھارتی انتخابات میں اس بار دو سیاسی اتحادوں کے مابین انتخابی دنگل سجا جس میں بی جے پی کو گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں مجموعی طور پر 59 سیٹیں کم ملیں جبکہ اپوزیشن کو 140 سیٹیں زیادہ ملی ہیں جو بی جے پی کا گراف گرنے کا واضح ثبوت ہے۔ دوسری جانب انتہاء پسند تنظیم شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے پہلے ہی یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ مرکز میں وہ آسانی سے حکومت بنا سکیں گے۔ یہاں آپ کو یہ آگاہ کرنا بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد نے لوک سبھا انتخابات میں اس بار اپنا ووٹ بی جے پی کیخلاف استعمال کیا۔ حکومت سازی کے عمل کا چونکہ آغاز ہو چکا ہے‘ بھارتی میڈیا کے مطابق 72 رکنی کابینہ حلف بھی اٹھا چکی اور کابینہ میں دیگر جماعتوں کے مبینہ طور پر 9 وزراء بھی شامل کئے جا چکے ہیں اس لئے بی جے پی اور اسکے این ڈی اے اتحاد سے معرض وجود میں آنیوالی مودی سرکار نے اب اپنی پالیسیوں پر کام کا آغاز کر دیا ہے تاہم مودی کے انتخابی اتحاد میں یہ بات قطعی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ گزشتہ انتخابات کی نسبت بی جے پی کو اس بار متعدد اہم نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑا جبکہ ’’اپوزیشن اتحاد‘‘ کو گزشتہ انتخابات کی نسبت اس مرتبہ 100 نشستیں زیادہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر اپنی سیاسی ساکھ کمزور ہونے کے باوجود مودی نے اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کو اس مرتبہ بھی دوران انتخابی مہم  دل کھول کر تنقید کا نشانہ بنایا جسے بیشتر بھارتی سیاست دانوں نے بھی محسوس کیا۔ 
اس بارے میں سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر تیسری مرتبہ براجمان ہونیوالے کسی رہنما نے آج تک ایسی گھٹیا اور تخریب کاری والی زبان استعمال نہیں کی جو دوران انتخابی مہم مودی نے مسلمانوں کیخلاف استعمال کی ہے۔ مودی دس برس تک مسلمانوں کیخلاف زہر اگلتے رہے‘ اپنے سابق دور اقتدار میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا افتتاح بھی کیا جبکہ 2019ء میں کشمیریوں کے خلاف آرٹیکل 370 اور 35 اے کو آئین ہند سے حدف کیا اور مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی سٹیٹ یونین میں ضم کرکے اسکے خلاف آنے والے شدید ردعمل کو روکنے کیلئے مقبوضہ وادی میں درندگی کی انتہاء کر دی۔ مودی سرکار کی ریشہ دوانیاں صرف بھارتی مسلمانوں تک ہی محدود نہیں رہیں‘ 26 فروری 2019ء کو بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی کو بھی تاراج کرنے کی کوشش کی جس پر 27 فروری کو پاکستان بھارت کو راست جواب دینے پر مجبور ہوا۔اب انتخابی اتحاد کے عمل کے بعد نریندر مودی کو پھر وزیراعظم منتخب کرلیا گیا ہے جس سے اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں میں مزید خوف و ہراس پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ جولائی 2023ء میں نریندر مودی کا وہ امریکی دورہ مجھے آج بھی جب یاد آتا ہے تو رگ حمیت پھڑکنے لگتی ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے اس امریکی دورہ کے دوران اسے غیرمعمولی پروٹوکول دیا گیا۔ بائیڈن سے دوطرفہ مذاکرات کے دوران مائیکرو سافٹ‘ اپیل‘ گوگل اور ناسا کے بھارتی سربراہان سے ملاقاتیں اور پھر 2 بلین امریکی ڈالرز کی بھارت میں سرمایہ کاری نے مودی کا دماغ ایسا خراب کیا کہ واپس بھارت پہنچتے ہی اس نے ایک بڑے عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اب تک بہت وقت ضائع کر چکے۔ بھارت اب ترقی یافتہ دنیا میں قدم رکھ چکا ہے۔ اس لئے پاکستان کا ذکر چھوڑیں‘ یہ تو جلد اپنی موت آپ مر جائیگا۔ مگر ہمیں اپنی توجہ اب اپنی ترقی کی رفتار مزید تیر کرنے پر مرکوز کرنا ہے۔ مودی کے پاکستان کیخلاف ان نازبیا الفاظ کی دنیا بھر میں گو مذمت کی گئی مگر امریکی صدر جوبائیڈن اس پر خاموش رہے اور انکی یہ خاموشی آج بھی برقرار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مودی کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی حلف برداری میں کئی دیگر ملکوں کے سربراہان کی طرح انہوں نے بھی شرکت نہیں کی۔ صبح و شام ’’سیکولر‘‘ کی رٹ لگانے والے مودی کے فیصلے کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ حالیہ انتخابات میں 24 مسلم اراکین پارلیمنٹ میں 21 کا تعلق اپوزیشن اتحاد انڈیا سے ہے اور بھارتی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بھی مسلمان رکن اسمبلی نے وزیر کا حلف نہیں اٹھایا۔

ای پیپر دی نیشن