گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے بچے محمد شیراز اور اس کی چھوٹی بہن مسکان کو اس وقت پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں لوگ ان کی ان ویڈیوز کی وجہ سے جانتے ہیں جن میں وہ نہایت معصومیت سے اپنے علاقے اور اپنے معمولات کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ان ویڈیوز سے ان دونوں بہن بھائی کو صرف شہرت ہی نہیں ملی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ ان کے لیے آمدنی کا ذریعہ بھی بنی ہیں۔ اسی شہرت اور آمدنی کی وجہ سے شیراز کے رویے میں تبدیلی آنا شروع ہوئی جسے دور بیٹھ کر ویڈیوز دیکھنے والے لوگوں نے تو شاید محسوس نہیں کیا لیکن اس کے والد نے فوری طور پر بھانپ لیا اور انھوں نے نہایت سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے وہی کیا جو اس قسم کی صورتحال میں ایک اچھے والد کو کرنا چاہیے۔ انھوں نے فی الفور شیراز کے ویڈیوز بنانے پر پابندی لگا دی اور اس کے چاہنے والوں کو اپنے ایک پیغام کے ذریعے بتایا کہ شیراز شہرت کی وجہ سے اپنی معصومیت اور حساسیت کھو رہا تھا، لہٰذا ایسے میں انھوں نے یہی مناسب سمجھا کہ اس کے مزید ویڈیوز بنانے پر پابندی لگا دی جائے۔ شیراز نے بھی اپنے والد کی بات مان کر اپنی آخری ویڈیو میں بتایا کہ وہ تب تک مزید ویڈیو نہیں بنائے گا جب تک اس کے والد اجازت نہیں دیں گے۔
کچھ ہی عرصے میں شیراز کو دوبارہ ویڈیوز بنانے کی اجازت تو مل گئی لیکن اس وقفے کے دوران اسے یہ سبق بھی مل گیا کہ اس کے والد کے نزدیک اس کی شہرت اور آمدنی سے زیادہ اس کی تربیت اہم ہے اور اس پر وہ سمجھوتا نہیں کریں گے۔ شیراز کے والد نے اپنے بیٹے کی اچھی تربیت کے لیے جو اقدام کیا یہ عام حالات میں تو معمولی بات سمجھی جانی چاہیے تھی لیکن پاکستانی معاشرے میں اس وقت مادہ پرستی کی جس لہر کا غلبہ ہے اسے سامنے رکھ کر بات کی جائے تو یہ ایک نہایت غیر معمولی واقعہ ہے۔ سوشل میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اب لوگوں کی قابلِ ذکر تعداد کے نزدیک عزت، غیرت، احساس، مروت، لحاظ اور ایسے ہی دیگر الفاظ بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں اور ان کی پوری توجہ صرف اور صرف اس بات پر ہے کہ کسی کام سے انھیں یافت کتنی ہورہی ہے۔
اس معاملے کا ایک افسوس ناک رخ یہ بھی ہے کہ لوگ اپنے گھر کی خواتین اور اپنی نجی زندگی کو سوشل میڈیا پر محض اس لیے دکھا رہے ہیں کہ ایک تو اس سے انھیں شہرت ملتی ہے جس سے وہ سلیبرٹی (celebrity) کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اس سے آمدنی بھی اچھی خاصی ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں، مختلف کمپنیاں اپنی مشہوری کے لیے جو تحفے وغیرہ بھیجتی ہیں وہ بھی ایسے لوگوں کے لیے دلکشی کا باعث بنتے ہیں۔ اب تک اس سلسلے کو اتنا فروغ مل چکا ہے کہ آپ کو بہت سے گھر ایسے مل جاتے ہیں جن کی خواتین صرف اسی کام پر لگی ہوئی ہیں اور مرد یہ سب کچھ نہ صرف خوش دلی سے قبول کررہے ہیں بلکہ وہ خود اس کام میں بڑھ چڑھ کر ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اگر یہ کوئی کاروباری سلسلہ ہوتا یا کسی قسم کی مہارت کو استعمال کر کے آمدنی کا حصول ممکن بنایا جارہا ہوتا تو اس کی تعریف کی جانی چاہیے کہ لوگ جائز حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر جو کچھ ہورہا ہے اس سے مہارت کا کوئی تعلق نہیں ہے، اس کام کے لیے بس آپ کی غیرت مری ہوئی ہونی چاہیے۔
اوپر جس سلسلے کے بارے میں بات کی گئی ہے اس کے لیے فیملی ولاگنگ (family vlogging) کی اصطلاح مستعمل ہے، اسے آسان الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے، ویڈیو بلاگ کے ذریعے اپنے کنبے یا خاندان کو سوشل میڈیا پر پیش کرنا۔ حد یہ ہے کہ فیملی ولاگرز (fmaily vloggers) اپنے دن بھر کے معمولات کو سوشل میڈیا کی نذر کررہے ہوتے ہیں اور اس دوران اس بات کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا کہ کون سی حرکت سوشل میڈیا پر دکھائی جاسکتی ہے اور کون سی نہیں، اور نہ ہی اس بات کا خیال کیا جاتا ہے کہ گھر کی خواتین کس لباس میں ویڈیو بنا یا بنوا رہی ہیں۔ حال میں کچھ فیملی ولاگرز کے ایسے سکینڈلز بھی سامنے آئے ہیں جن سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ ایسا کرنے والے لوگ طالبِ شہرت و آمدن ہیں اور انھیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی بہنوں، بیٹیوں، بیویوں اور مائوں کے بارے میں کیا کہا جارہا ہے۔ غالب نے تو اب سے ڈیڑھ پونے دو صدیاں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ
غارت گرِ ناموس نہ ہو گر ہوسِ زر
کیوں شاہدِ گُل باغ سے بازار میں آوے
یہاں تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ اس مسئلے کے سماجی پہلو ہیں، اس کے کچھ دیگر پہلو بھی ہیں جن پر اتنی ہی توجہ دی جانی چاہیے جتنی کہ سماجی پہلوؤں پر دی جانا ضروری ہے۔ اس حوالے سے ایک تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس ملک میں وسائل پر جو طبقات قابض ہیں انھوں نے اپنی بے حسی سے پورے منظر نامے کو اس حد تک تاریک بنا کر رکھ دیا ہے کہ اب لوگوں کو اس اندھیرے میں کچھ سجھائی ہی نہیں دے رہا اور وہ اچھے برے کی تمیز بھول کر وہ سب کچھ کررہے ہیں جس سے ان کے خیال میں ان کے لیے آسانی پیدا ہورہی ہے۔ حکومت کا کام صرف انتظامی معاملات کو چلانا ہی نہیں بلکہ معاشرے میں سدھار پیدا کرنا بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو سوشل میڈیا پر جو کچھ بھی غلط ہورہا ہے اس کے لیے صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ حکومت بھی پوری طرح ذمہ دار ہے۔
سوشل میڈیا اور ہوسِ زر کی غارت گری
Jun 20, 2024