دوسری جنگ عظیم میں اتحادی قوتوں نے بالآخر امریکی ایٹم بم کے بل بوتے پر فتح حاصل کر لی۔ جرمنی اور جاپان میں سے کسی کے پاس بھی ایٹم بم ہوتا تو امریکہ اول تو ایٹم بم کا استعمال ہی نہ کرتا اگر ایٹم بم استعمال ہوتا توہٹلر یا جاپانی وزیر اعظم ہدیکی تو جو کی ایٹم بم برسا کر جنگ کا توازن اپنی طرف موڑ لیتے۔جنگوں میں جاسوسی کا کلیدی کردار رہاہے۔ کئی جنگیں جاسوسوں کی مدد سے بغیر گولی چلائے جیتی گئی ہیں۔ جرمنی اور جاپان کی شکست کی وجہ امریکہ کی طرف سے ایٹم کا استعمال نہیں بلکہ جاسوسی میں ناکامی تھی۔ امریکہ نے ہیرو شیما کے بعد ناگا ساکی پر بم برسا یا تو دھمکی دی،سرنڈر ورنہ تیسرا بم اگلے شہر پر۔۔۔ امریکہ کے پاس اس وقت تیسرا بم موجود ہی نہیں تھا۔ جس سے جاپانی اور جرمن انٹیلی جنس لا علم تھی۔مزید تباہی کے خوف سے جاپانی بادشاہ ہیرو ہیٹو کے حکم پر جاپانی افواج نے ہتھیار ڈال دیئے۔جرمنی نے بھی شکست مان لی۔
دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں اور کروڑوں انسانوں کے خاک اور خون میں مل جانے کے بعدفاتح اتحادیوں نے کئی جرائم کے تحت مقدمات چلائے۔ یہی جرائم ان کی طرف سے بھی سرزد ہوئے تھے۔ چونکہ وہ فاتح تھے اس لئے جاپان اورجرمنی کیلئے جرم ضعیفی کی سزا کا اطلاق ’’طاقت کے قانون‘‘ کی لاٹھی ٹھہری۔ 18 اکتوبر 1945ء اور یکم اکتوبر 1946ء کے درمیان بین الاقوامی فوجی عدالت نے سازش کرنے، امن کیخلاف جرائم، جنگی جرائم اور انسانیت کیخلاف جرائم کے الزامات کے تحت ہٹلر کے بائیس بڑے ساتھیوں کے خلاف مقدمات چلا کر بارہ کو سزائے موت دے دی۔ ان میں ہانس فرینک، ہرمان گوئرنگ، ایلفریڈ روزن برگ اور جولیئس اسٹریخ شامل تھے۔ تین ملزموں کو عمر قید اور چار کو دس سے بیس برس تک کی قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ جاپانی وزیراعظم ہدیکی توجو کی اور دیگر چھ ٹاپ لیڈر اورجرنیل بھی تختہ دار پر چڑھا دیئے گئے۔18 کو عمر قید کی سزا ہوئی۔پھانسی کے بعد جاپانی وزیراعظم کی لاش کہاں گئی ؟ امریکی فوج کی خفیہ دستاویزات کے ذریعے اس سوال کا جواب کئی دہائیوں بعد سامنے آیا ہے۔ امریکی بندرگاہ پرل ہاربر پر حملے کے ماسٹر مائنڈ جاپانی وزیراعظم توجو کی کو سزائے موت سے ہمکنار کرنے کے بعد راکھ کو ایک امریکی جنگی طیارے کے ذریعے بحرالکاہل میں پھینکا گیا تھا۔جاپانی جنرل یاماشیتا نے سنگاپور کے محاذ پر جنرل پرسیول سے ایک لاکھ تیس ہزار فوجیوں سمیت سرنڈر کرایا تھا۔ یہ دنیا کا اس وقت کا سب سے بڑا سرنڈر تھا۔یاماشیتا کو بھی پھانسی دی گئی۔
پھانسیوں کا سلسلہ طویل عرصے چلا۔ایڈولف ایکمین کا مقدمہ 1961ء میں یروشلم میں چلا جس نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی۔ایڈولف ایکمین جسے آئخمین بھی کہا جاتا ہے۔وہ ہولو کاسٹ کے دوران یورپ کی یہودی آبادیوں کی جلاوطنی کے سلسلے میں مرکزی کرداروں میں سے ایک تھا۔ جنگ کے اختتام پر اسے امریکہ میں زیر حراست لے لیا گیا لیکن وہ 1946ء میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ کیتھولک چرچ کے اہلکاروں کی مدد سے وہ فرار ہو کر ارجنٹینا پہنچ گیا جہاں وہ ریکارڈو کلیمنٹ کے نام سے رہا۔ 1960ء میں اسرائیلی سیکورٹی سروس کے ایجنٹوں نے ایکمین کو پکڑ لیا۔وہ اسے اسرائیل لے آئے۔ یروشلم میں ایکمین پر مقدمہ چلا،اسے یہودیوں کے خلاف جرائم میں قصوروار پایا گیا۔ اسے 31 مئی اور یکم جون 1962ء کی درمیانی شب پھانسی دے دی گئی۔ اس کی لاش کو جلا کر راکھ سمندر میں پھینک دی گئی۔
اس آخری پھانسی کے آٹھ نوسال بعد سانحہ مشرقی پاکستان جنم لیتا ہے۔ پاکستان دو لخت ہو گیا۔16دسمبر1971ء کو سقوط بنگال ہوا۔ اس سے دوماہ قبل اکتوبر 1971 میں شاہِ ایران کے ڈھائی ہزار سالہ جشن میں جنرل یحییٰ خان بھی موجود تھے۔ ان کا سامنا بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ہوا تو انہوں نے کہا جنرل آپ کی بڑی شہرت سنی ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود مرحوم نے ایک تحریر میں بتایا کہ یحییٰ خان نے نشیلی آنکھوں اور دلربا مسکراہٹ سے کہا آپ نے میری دوسری شہرت کے بارے بھی سناہوگا۔ اس پر اندرا گاندھی غصے سے پاؤں پٹختی اورتلملاتی ہوئی دوسری طرف چلی گئیں۔
امریکہ برطانیہ فرانس اور روس جیسے اتحادی دوسری جنگ عظیم میں دشمن افواج کے جرنیلوں کو ان کے انسان دشمن اقدامات، احکامات اور انسانیت کو بچانے میں اپنا کردار ادا نہ کرنے کے جرم میں ان سے دل میں نفرت اور دماغ میں جذبہ انتقام لیے بیٹھے تھے۔ اندرا گاندھی کو پاکستان سے دشمنی ، کینہ ، بغض، عناد،کدورت اور نفرت وراثت میں ملی تھی۔ اندرا گاندھی کے والد جواہر لعل نہرو اور دادا موتی لعل نہرو قیام پاکستان کی راہ میں حائل ہونے کے لیے سرگرداں رہے۔ پاکستان ان کے سینے پر پھوڑے کی مانند تھا۔ اندرا گاندھی بھی پاکستان ،پاک فوج اورجرنیلوں سے اسی طرح نفرت کرتی اور جذبہ انتقام میں جل رہی تھیں جس طرح اتحادی ممالک کے سربراہان انسانیت کش انتقام پر اترے ہوئے تھے۔اندرا گاندھی ہمارے کئی افسروں اور جرنیلوں کو پھانسی پر لٹکانا چاہتی تھیں۔جو ان کی قید میں تھے۔اس کا تذکرہ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ میں موجود ہے۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو33ہزار فوجیوں سمیت93ہزار قیدیوں کو رہا کروانے میں کامیاب ہوئے۔
بھٹو پر پاکستان توڑنے کاالز ام لگتا ہے۔ پاکستان توڑنے میں بھٹو کے ساتھ شیخ مجیب الرحمن، اس وقت کے فوجی صدر جنرل یحییٰ خان کو بھی ملوث قرار دیا جاتا ہے۔ اندرا گاندھی کا کردار بھی کلیدی تھا جن کی مکتی باہنی اور پھر فوج نے دوسرے ملک میں گھس کر کارروائیاں کیں۔
بھٹو صاحب کو81 سیٹیں ملیں۔ ان کے مقابلے میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو160 پر کامیابی حاصل ہوئی۔ بھٹو صاحب نے مشرقی پاکستان سے الیکشن کیوں نہیں لڑا تھا؟ بھٹو کو پاکستان توڑنے کے جرم میں شریک سمجھا جاتا ہے۔ یہ جرم عظیم ہے۔ دوسری طرف ان سارے کارناموں کو ایک طرف رکھ دیں جس میں1973ء کا آئین، اسلامی سربراہی کانفرنس قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا شامل ہے۔ شراب پر پابندی اتوار کی بجائے جمعہ کی چھٹی کا فیصلہ اور کئی دیگر بھی کار ہائے نمایاں ہیں۔ ان کے مقابلے میں ان کا ایک کارنامہ جرنیلوں کو سزا سے بچا کر پاکستان لے آنا بہت بڑا کارنامہ ہے۔یہ وہ ماحول تھا جس میں عالمی سطح پر جنگی جرائم میں جاپان اور جرمنی کے جرنیلوں کو پھانسیاں ہو رہی تھیں۔ قارئین! آپ کے لیے سوال ہے کہ بھٹو کا جرم بڑاہے یا کارنامہ؟