اسرائیلی فورسز نے عید کے دنوں میں حملے کر کے 53 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ عید کے دوسرے روز غزہ میں نصیرت پناہ گزین کیمپ میں حملہ کرکے 12 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا جبکہ عید کے پہلے روز اسرائیلی بمباری میں 41 فلسطینی شہید ہو گئیتھے۔کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب اسرائیلی بربریت میں درجنوں کے حساب سے فلسطینیوں کو شہید نہ کر دیا جاتا ہو۔اسرائیلی سفاکیت سے مساجد محفوظ ہیں نہ ہاسپٹل اور نہ ہی کوئی اور پناہ گاہ محفوظ ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے شروع ہونے والی جنگ میں اب تک 37 ہزار 347 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جس میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔زخمی اور معذور ہونے والوں کی تعداد اس سے دوگنا سے زیادہ ہے علاوہ ازیں لاکھوں افراد بے گھر بھی ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے جنگ زدہ فلسطینی علاقے میں قحط کے انتباہ کے پیش نظر امداد کی ترسیل یقینی بنانے کے لیے روزانہ جنوبی غزہ میں کچھ گھنٹے کے لیے لڑائی روکنے کا اعلان کیا تھا۔رفح کے علاقے میں دن کی کے اوقات میں فوجی سرگرمیاں روکنے کا اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا تھا جب ایک دھماکے میں آٹھ اسرائیلی فوجی مارے گئے اور تین مزید صہیونی فوجی دیگر جگہوں پر ہلاک ہوئے تھے جو حماس کے ہاتھوں اس جنگ میں ایک دن میں اسرائیلی فوج کو پہنچنے والا سب سے بڑا نقصان ہے۔اسرائیل کی طرف سے عید سے قبل روزانہ کی بنیاد پر 11 گھنٹے جنگی کارروائیاں روکنے کا اعلان کیا گیا۔کہا گیا تھا کہ صبح آٹھ سے شام سات بجے تک ہر قسم کی جنگی سرگرمیاں بند رہیں گی۔اپنے ہی اعلان کو اسرائیل کی طرف سے ملیامیٹ کیا گیا۔عید کے روز اور عید کے بعد ہونے والے حملے، جن میں 50 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، دن کی روشنی میں ہوئے۔
صہیونیوں سے فلسطینیوں کے لیے کسی اچھائی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔فلسطینی بھی جرات اور دلیری سے اسرائیلی فسطائیت جبر ظلم اور سفاکیت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔اسی دورانیہ میں مسجد اقصی میں نماز عید بھی ادا کی جانی تھی جس میں اسرائیل کی طرف سے کسی قسم کی جنگی کارروائی نہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا مگر مسجد کو جانے والے راستوں کو رکاوٹوں سے بند کرنے کی کوشش کی گئی۔رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود مسجد اقصیٰ تکبیرات سے گونج اٹھی اور 40 ہزار سے زائد فلسطینی قبلہ اول میں داخل ہو کر عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ غزہ و دیگر شہروں میں بے سروسامان نہتے فلسطینیوں نے ملبے پر عید کی نماز پڑھی۔ اسرائیلی فورسز نے مسجد اقصیٰ میں عید الاضحیٰ کی نماز پڑھنے کے لیے آنے والے مسلمانوں پر حملہ کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ قابض فوج نے مسجد اقصیٰ کے صحن میں توڑ پھوڑ کی اور نمازیوں کے شناختی کارڈز چیک کرکے انکو ہراساں کیا۔ دوسری جانب غزہ میں فلسطینیوں نے اپنے تباہ شدہ گھروں کے ملبے پر نماز عید ادا کی۔ اس موقع پر غزہ کے غیور عوام کا جذبہ دیدنی تھا۔ بچے، خواتین، مردوں نے معمولی لباس پہنے تھے۔ بمباری سے غزہ میں پانی کے تقریباً تمام کنویں تباہ، قحط سے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی نے کہا ہے کہ فلسطین اسرائیل تنازعے کے باعث سکولوں کی جبری بندش سے غزہ میں تقریباً 6 لاکھ 25 ہزار بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ جنگ نے غزہ میں بچوں کے ذہنوں پر بدترین اثرات مرتب کیے ہیں۔ بچ جانے والے بچے گہرے صدمے کا شکا ر ہیں۔
اسرائیلی جارحیت ساڑھے آٹھ ماہ سے جاری ہے اس دوران چند روز کی جنگ بندی بھی ہوئی۔ اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کے خاتمے کا بڑی بے صبری سے انتظار کیا گیا اور اس کے خاتمے کے ساتھ ہی ایک بار پھر سفاکیت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کی متفقہ قرارداد منظور ہو چکی ہے جس کی امریکہ نے بھی حمایت کی مگر اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ امریکہ جنگ بندی کروانا چاہے اور اسرائیل انکار کر دے۔
امریکی مشیر برائے قومی سلامتی وائٹ ہائوس جیک سیلوان نے کہا ہے کہ قطر اور مصر کے ثالث جلد ہی حماس سے رابطہ کر کے جاننے کی کوشش کریں گے کہ جوبائیڈن کی جنگ بندی تجویز کو آگے بڑھانے کا کوئی طریقہ ہے۔
جوبائیڈن کو جنگ بندی کی تجویز پر کسی سے رائے لینے یا ثالثی کی نہیں بلکہ جنگ بندی کی قرار داد پربلا تاخیر عمل کرانیکی ضرورت ہے۔اسرائیل فلسطین جنگ ساڑھے آٹھ ماہ میں خاتمے کی طرف جانی چاہیے تھی مگر یہ جنگ پھیلتی جا رہی ہے جو کسی بھی وقت بے قابو ہو سکتی ہے۔ یہ جنگ پھیل کر لبنان شام یمن اور ایران تک آگئی ہے۔ مشر ق وسطیٰ کے بعد یہ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کی بے حسی فلسطینی اور کشمیری عوام کی بدقسمتی بن چکی ہے۔ اقوام متحدہ اگر اپنی قراردادوں پر عمل کرانے سے قاصر ہے تو یہ ادارہ بند ہی کر دیا جائے۔ اقوام متحدہ بے بس نہ ہوتی تو افغانستان کو امریکہ کی طرف سے تورا بورا نہ بنا دیا جاتا۔امریکی صدر جو بائیڈن کبھی جنگ بندی کی بات کرتے ہیں اور کبھی اسرائیل کے ساتھ کھڑیہونے کا اعلان کرتے ہیں۔اسرائیل کے ظلم کا ہاتھ نہ روک کر عالمی طاقتیں اور اقوام متحدہ اس کے مظالم میں حصے دار بن چکے ہیں۔
مسجد اقصیٰ میں توڑ پھوڑ، نمازیوں پر تشدد اور فلسطینیوں کا ملبے کے ڈھیروں پر نماز پڑھنا،یہ انسانیت کے ٹھیکیداروں بالخصوص مسلم دنیا کے لیئے لمحہ فکریہ ہے جو فلسطینیوں کے لیئے صرف دعاؤں پر قناعت کر رہی ہے۔ اسرائیل نے امریکی شہہ پر یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی جنگ بندی اور فلسطین کو تسلیم کرنے کی قراردادیں بھی پاؤں تلے روند دی ہیں اور مسجد اقصیٰ سمیت پورے فلسطین کو ملیامیٹ کرنے کی ننگ انسانیت کارروائیوں میں مصروف ہے۔ فلسطینیوں کی عید کے دن کی بھی بیچارگی دیکھ کر تو مسلم قیادتوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔