اسلام آباد (لیڈی رپورٹر+ ایجنسیاں) ارکان سینٹ نے بڑھتی ہوئی کی لوڈشیڈنگ اور مہنگائی پر حکومت پر کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ دو سال گزرنے کے باوجود حکومت عوامی مسائل حل نہیں کر سکی‘ ملکی حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں‘ توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے اقدامات نہ کئے تو ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا‘ پیپلز پارٹی کی حکومت ناکام ہو چکی ہے۔ سینیٹر حاجی عدیل نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ پنجاب میں پختونوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کی پکڑ دھکڑ کی جا رہی ہے‘ پختونوں کے شناختی کارڈ نہیں بنائے جا رہے ہیں‘ ہمارا مسئلہ حل نہ ہوا تو ہمیں سینٹ اور وفاقی دارالحکومت سے کوئی دلچسپی نہیں رہے گی۔ پروفیسر خورشید نے کہا کہ حاجی عدیل کے نکتہ اعتراض کا نوٹس لے کر مکمل تحقیقات کرائی جائے۔ بہارہ کہو میں کرایوں میں اضافہ پر افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے ‘ 16 گھنٹے سڑک بند رہی لیکن حکومت نے نوٹس نہیں لیا‘ عوام کو انصاف نہیں ملے گا تو وہ قانون ہاتھ میں لیں گے‘ وزیر داخلہ کو اس صورتحال کی مکمل وضاحت کرنی چاہئے۔ سینیٹر عبد الرحیم مندوخیل نے کہا کہ اسلام آباد میں پختون شہریوں کو تنگ کیا جا رہا ہے‘ حکومت نوٹس لے‘ جرائم پیشہ افراد کے خلاف حکومت کارروائی کرے گی تو کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔ سینیٹر ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے کہا کہ اوکاڑہ کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقوں سے بلوچوں کو نکالا جا رہا ہے اس کا نوٹس لیا جائے جس پر قائد ایوان نے یقین دلایا کہ اس بات کا نوٹس لیا جائے گا۔ سینیٹر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے صنعتیں بند ہوتی جا رہی ہیں‘ سرمایہ کاری ختم ہو رہی ہے جو تشویشناک بات ہے ۔ سینیٹر صفدر عباسی نے کہا کہ 1992ءمیں بھی لوڈشیڈنگ تھی لیکن مضبوط پاور پالیسی لائی گئی جس وجہ سے 1996ءمیں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگیا۔ سینیٹر زاہد نے کہا کہ کسی حکومت کے لئے عوامی مسائل حل کرنے کے لئے دو سال کافی ہوتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے کسی قسم کے اقدامات نہیں کئے‘ وزیر پانی و بجلی لوڈشیڈنگ کے حوالہ سے صورتحال کی مکمل وضاحت کریں‘ مسائل حل نہ ہوئے تو جلد انارکی پھیل جائے گی۔ بہارہ کہوہ جیسے واقعات پھر رونما ہو سکتے ہیں۔ سینیٹر گل نصیب خان نے کہا کہ مرکزی حکومت اپنی اتحادی جماعتوں کو مسلسل نظرانداز کر رہی ہے‘ سوات میں ہمارے نظربند افراد پر مقدمات چلانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) بلوچستان اسمبلی میں متفقہ قرارداد پیش کرنا چاہتی تھی تاکہ دفاع‘ خارجہ امور اور مواصلات کے سوا دیگر شعبے وفاق صوبوں کو منتقل کر دے لیکن اس قرارداد کو ایوان کے ایجنڈے پر نہیں لایا گیا۔ اس واقعہ پر جمعیت علمائے اسلام (ف) اور فاٹا کے ارکان ایوان سے احتجاجاً واک آوٹ کر گئے۔ سینیٹر جمال لغاری نے کہا کہ کل چوٹی زیریں میں ایک مذہبی جماعت کے رہنما نے دوسرے مذہبی جماعت کے رہنما کے بیٹے کو قتل کر دیا‘ پولیس اہلکار وہاں سے خوفزدہ ہو کر بھاگ گئے۔ جنوبی پنجاب میں طالبانائزیشن ہو رہی ہے جس وجہ سے علاقہ کے حالات روز بروز بگڑتے جا رہے ہیں۔ سینیٹر صابربلوچ نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بیان دیا ہے کہ طالبان پنجاب میں دہشت گردی کی کارروائیاں نہ کریں‘ اس بیان سے دوسرے صوبوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔ سینیٹر عبد الغفار قریشی نے کہا کہ ایران نے پاکستان کو بجلی دینے کی پیشکش کی ہے جو رینٹل پاور سے سستی ہے حکومت اقدامات کرے تاکہ بجلی مل سکے۔ سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ پورا بلوچستان بجلی سے محروم ہے‘ بجلی کے مسئلہ کو جلدی حل کیا جائے۔ سینیٹر محمد علی درانی نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ جنوبی پنجاب میں 14 نہروں کا پانی بند ہے جس سے گندم کی فصلوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ علاقہ کا پانی کڑوا ہونے کی وجہ سے استعمال نہیں کیا جا سکتا‘ گندم کی فصل کو پانی نہ ملا تو فصل بُری طرح متاثر ہو سکتی ہے‘ حکومت چھوٹے علاقوں کے مسائل کی طرف بھی توجہ دے۔ سینیٹر محبت خان مری نے کہا کہ خضدار یونیورسٹی میں بم دھماکے کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے۔ بلوچستان میں قوم پرستوں کے درمیان خانہ جنگی ہو رہی ہے اس کا نوٹس لیا جائے جس پر وزیر مملکت برائے داخلہ تسنیم قریشی نے کہا کہ خضدار یونیورسٹی میں بم دھماکے کی تحقیقات مکمل ہوتے ہی رپورٹ ایوان میں پیش کر دی جائے گی۔ سینیٹر محمد عدیل ایوان سے یہ کہہ کر واک آوٹ کرگئے کہ آج اینٹی منی لانڈرنگ بل پیش نہ کیا جائے وزراءکی فوج ایوان کو اہمیت نہیں دیتی۔ وزیر مملکت برائے خزانہ و اقتصادی امور حنا ربانی کھر نے کہا کہ وہ قومی اسمبلی میں مصروف تھیں جس وجہ سے سینٹ میں تاخیر سے آئی ہیں ۔ حنا ربانی نے تحریک پیش کی کہ اینٹی منی لانڈرنگ بل2010ءقائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں فی الفور زیر غور لایا جائے۔ ایوان نے اتفاق رائے سے تحریک منظور کرلی۔ سینٹ میں قائد ایوان سید نیئر حسین بخاری نے حکومت اوراراکین کی طرف سے تنقید کے بعد کہاکہ پنجاب میں پختونوں کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ وزیر داخلہ اس صورتحال کی مکمل وضاحت کریں گے۔ بارہ کہوہ میں جو واقعات پیش آئے ہیں اس سلسلہ میں جو کرائے بڑھائے گئے تھے وہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔ ذمہ داروں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی۔ قائد حزب اختلاف وسیم سجاد نے کہاکہ ملک میں ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے‘ عوام کے مسائل کسی کو نظر نہیں آ رہے ہیں ان مسائل کے حل کے لئے حکومت مثبت پالیسیاں اختیار کرے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ تسنیم قریشی نے کہا کہ ایسے تمام واقعات کی روک تھام کے لئے حکومت بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔