چڑیا گھر کو دُنیا بھر میں لوگوں کیلئے بہترین تفریح گاہ سمجھا جانا ہے جو بڑوں اور بچوں میں یکساں مقبول ہے۔جہاں تک بات لاہور چڑیا گھر کی ہے تو جب اِس کا قیام عمل میں لایا گیا تو اسکی زمین فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ نے دی جبکہ جانور محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے فراہم کیے گئے اِسکی تاریخ پر نظر دڑوائیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب عوام کیلئے تفریح نہ ہونے کے برابر تھی تب بھی یہ انکی اَولین سیرگاہ تھی جبکہ آج دورِ جدید میں بھی اسکی اہمیت ومقبولیت کم نہ ہو سکی خواہ گرمی ہو یا سردی، تہوار ہو یا چھٹی یہاں عوام کا ایک جمِ غفیر دیکھنے کو ملتا ہے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والوں کا شوق واہنماک دیدنی ہوتا ہے خصوصاً اگر عید ہو یا کرسمس تو یہاں کی یومیہ آمدنی لاکھوں سے تجاوز کر جاتی ہے۔ لوگ قطار در قطار لائنوں میں لگ کر ٹکٹ حاصل کرتے ہیں یہاں کے ذرائع آمدن میں مہنگی پارکنگ فیس، داخلہ ٹکٹیں، کنٹین سٹالز اور جانوروں کی خوراک کی مَد میں دیئے جانے والے بھاری بھر کم ٹھیکے شامل ہیں۔ علاوہ ازیں تمام داخلی دروازوں پر لگائے جانیوالے ٹھیلوں سے بھی انتظامیہ پیسے وصول کرتی ہے۔ یہ تمام تر آمدنی جانوروں کی وجہ سے ہوتی ہے مگر نہایت اَفسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انہی جانوروں کو حسرت ویاس کی تصویر بنا دیا جاتا ہے۔ گزشتہ دِنوں بے حِسی کا ایک ایسا ہی مظاہرہ چڑیا گھر کی اِنتظامیہ کی جانب سے دیکھنے کو مِلا جب اس نے پہلے تو اِن بے زبان جانوروں کو مخّیر حضرات کے گود لینے کیلئے تشہیری مہم چلائی اور بعدازاں پنجاب یونیورسٹی کے زوالوجی ڈیپارٹمنٹ کے شیر کے جوڑے کو پندرہ لاکھ کے عوض گود لینے کی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں محکمہ کے اعلیٰ اَفسران نے بھی شرکت کی۔ ماضی میں بھی اِس طرح کے واقعات ہوئے کہ کبھی کوئی فلمی اَداکارہ محض میڈیا پر پذیرائی کی خاطر ہرن کے جوڑے کو گود لیتی ہے اور انکی کفالت کا وعدہ کرتی ہے۔ تاہم کچھ عرصہ بعد منظرِ عام سے غائب ہو جاتی ہے۔ اصل میں یہ جانور اِنتظامیہ کو پالنے کا ذریعہ ہیں اِن کی بدولت ہی ان کو تعینات کیا جاتا ہے اور تنخواہیں ودیگر مراعات دی جاتی ہیں جبکہ جواباً اِنتظامیہ انکی کفالت سے قاصر نظر آتی ہے اور اکثر جانوروں خصوصاً ہتھنی کو لوگوں سے روپے اکٹھے کرنے پر لگا دیا جاتا ہے۔ چڑیا گھر میں جو سب سے زیادہ آمدنی کا ذریعہ ہے وہ داخلہ ٹکٹ ہے جن کا حساب کتاب اِنتظامیہ کے پاس ہوتا ہے کیونکہ اس کا ٹھیکہ نہیں دیا جاتا۔ اَفسران کی ملی بھگت سے کھانے پینے کی ناقص اور غیرمعیاری اَشیاءاِنتہاءمہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں۔ اُونٹ وہاتھی سواری کا کنٹرول بھی ڈائریکٹر زُو کے پاس ہوتا ہے کوئی بھی سٹال یا ٹھیلہ ایسا نہیں جن سے پیسے وصول نہیں کیے جاتے جبکہ اس محکمہ کو حکومت کی جانب سے بھی بھاری بھر کم گرانٹ دی جاتی ہے اور پرائیویٹ اداروں کی جانب سے دیا جانیوالا چندہ اسکے علاوہ ہے جبکہ اَصل صورتحال یہ ہے کہ ان جانوروں کو دی جانیوالی خوراک تک میں گھپلے کیے جاتے ہیں ان کو کمزور اور بیمار جانوروں کا گوشت اور ناقص غذا فراہم کی جاتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ گوشت اور خوراک پنجروں میں پڑی ہونے کے باوجود جانور مُنہ موڑے کھڑے ہوتے ہیں جس کا سبب خوراک کا غیرمعیاری ہونا ہے۔
اس محکمہ کے عہدیداروں کا اَولین فرض اور ذمہ داری اِنکی کفالت اور دیکھ بھال کرنا ہے نہ کہ کمائی کا ذریعہ بنانا ہے۔ انتظامیہ کا ایک گھناﺅنا کردار اندرونِ خانہ ان بے زبان جانوروں کی تبدیلی ہے جن شوقین حضرات نے قیمتی جانور پالے ہوتے ہیں وہ انکے مرنے کی صورت میں چڑیا گھر کی انتظامیہ سے سازباز کر کے ان کو یہاں کے زندہ جانوروں سے تبدیل کروا لیتے ہیں جبکہ محکمہ کے اعلیٰ عہدیداران کی اموات کو حادثاتی رنگ دے کر اصل حقائق کی پردہ پوشی کر جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی جانور کی موت کی تحقیقات سامنے نہیں لائی گئیں کہ اصل وجوہات سامنے آ سکیں۔