احسان الحق
کیا تھر کے بعد رحیم یارخان کے نزدیک واقع چولستان میں ایک نیا "تھر"جنم لینے جارہاہے؟ چولستان کے باسیوں سمیت خطے کے ہرشخص کی زبان پر اس خدشے کا اظہار ہونے کے باوجود پنجاب حکومت اور مقامی ضلعی انتظامیہ کے کانوں پر جونک تک نہیں رینگ رہی۔ مقامی ضلعی انتظامیہ پچھلے دوہفتوں سے مقامی طور پر منعقد کیے گئے متعدد فیسٹیولز اور پھولوں کی نمائشیں منعقد کرانے میں مصروف ہے جبکہ یہاں سے چند میل کے فاصلے پر واقع چولستان کے باسی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق عرصہ تین سال سے چولستان میں بارشیں نہ ہونے کے باعث مقامی باشندے آج کل اپنے بچوں اور مال مویشیوں سمیت مختلف علاقوں میں نکل مکانی کررہے ہیں کہ شاید وہ اپنے جانوروں اور بچوں کی جانیں بچا سکیں لیکن معلوم ہواہے کہ پانی کی تلاش میں اب تک چولستانی باشندوں کے سیکڑوں جانور اپنی جان سے ہاتھ دو بیٹھے ہیں لیکن وہ ابھی تک اپنے بچوں کو انتہائی گدلا پانی پلانے پر مجبور ہیں جس سے خدشہ ہے کہ آئند ہ چند روز کے دوران چولستان کے بچے بھی تھر کے بچوں کی طرح پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہوکر اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں ۔ چولستان کے باسیوں کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی فائلوں میں چولستان کے مختلف مقامات پر سیکڑوں ڈسپنسریاں کام کررہی ہیں اور چولستانی باشندوں کو ایمرجنسی طور پر بڑے ہسپتالوں میں لے جانے کے لیے بظاہر ان ڈسپنسریوں میں ایمبولینس گاڑیاں بھی کھڑی ہیں جبکہ عملی طورپر چولستان کے باشندوں کی قسمت میں ان ڈسپنسریوں کا عملی طورپر وجود دوردور تک دکھائی نہیں دے رہا۔ چولستان کے باشندوں کو میٹھے پانی کی فراہمی کے لے پنجاب حکومت نے کچھ عرصہ قبل ٹربائنیں بھی نصب کی تھیں اور ان کو چلانے کے لیے جرنیٹر بھی فراہم کیے گئے تھے جبکہ عملی طورپ چولستان میں آج ان ٹربائنوں کی صرف باقیات نظر آرہی ہیں جو چولستانی باشندوں کا ساراسال منہ چڑاتی رہتی ہیں۔ چولستان میں طویل خشک سالی کے باعث جنگلی حیات جس میں خاص طور پر چنکارا ہرن بھی شامل ہے اسے بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہاہے اور خدشہ ظاہر کیاجارہاہے کہ چنکارہ ہرن کچھ عرصہ بعد صرف کتابوں میں نظر آئے گی اس لیے ھکومت پنجاب اور ضلعی انتظامیہ کوچاہیے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر چولستان میں بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی فوری طور پر یقینی بنائیں تاکہ چولستان تھر بننے سے محفوظ رہ سکے ۔
رحیم یارخان شہر میں دوسرا اہم ترین مسئلہ آج کل تکنیکی خامیوں کی حامل میگا سیوریج سکیم کے باعث شہر میں پیدا ہونے والے حالات ہیں اربوں روپے کی لاگت سے بظاہر مکمل ہونے والی اس سیوریج سکیم کے باعث سابقہ ضلعی انتظامیہ کے بعض ارکان ، چند ٹھیکیدار اور چند دیگر لکھ پتی ہوچکے ہیں لیکن شہریوں کو ابھی تک شہر بھر میں سیوریج کے بھیانک مسائل کا سامنا ہے۔اطلاعات کے مطابق کچھ عرصہ قبل وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے شہریوں کی شکایت پر خصوصی طورپر ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جس نے رحیم یارخان آکر بڑے دھڑلے سے تحقیقات شروع کیں اور مقامی صحافیوں کو تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے بتایا گیا کہ میگا سیوریج سکیم میں کرپشن کرنے والے عناصر کو بے نقاب کیا جائے گا تاہم ذرائع کے مطابق مذکورہ تحقیقاتی رپورٹ ابھی تک لاہور کے کسی دفتر میں پڑی ہوئی ہے اور شہریوں میں ابھی تک تحقیقاتی رپورٹ کے نتیجے کا انتظارہے جبکہ شہر بھر میں تجاوزات کے باعث پیدا ہونے والے حالات کے باعث بھی شہریوں میں تشویش کی لہر پائی جا رہی ہے
چولستان میں ”نیا تھر“ جنم لینے لگا؟
Mar 20, 2014