انور سدید
اس وقت پوری دنیا کی نظریں بھارت میں ہونے والے عام انتخابات پر جمی ہوئی ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں رقبے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے جہاں آزادی کے بعد جمہوریت قائم ہے اور انتقال اقتدار پرامن طریقے سے ہو رہا ہے۔ پڑوسی ممالک سے دشمن کی فضا میں اس ملک کا ایٹمی طاقت بن جانا اور امریکہ جیسی ”یونی پولر پاور“ کو اپنی طرف متوجہ کر لینا بھی اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت میں لیڈرشپ کا شدید بحران ہے اور پنڈت نہرو کے بعد بھارت کو ایسا لیڈر نہیں ملا جو ایک ارب سے زیادہ آبادی کے ملک کو قابلِ قبول ہو۔ بظاہر بھارت نے سیکولرزم کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے لیکن درحقیقت ”ہندوازم“ میں اس کا اصلی چہرہ ہے جس نے گزشتہ 44 سال کے عرصے میں تنگ نظری اور عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دیا۔ شیوسینا جیسی جنگجو جماعتیں پروان چڑھیں جو اقلیتوں کا خون بہانے سے دریغ نہیں کرتیں۔ اس فضا میں بھارت کے آئندہ انتخابات میں عالمی دلچسپی کا ایک باعث یہ بھی ہے کہ ان انتخابات کے نتائج پر نئی حکومت بنے گی جبکہ آثار واضح ہیں کہ بھارت کی دو بڑی سیاسی جماعتیں کانگریس اور بی جے پی چار ریاستوں کے گزشتہ انتخابات میں مات کھا چکی ہیں اور اب ان دونوں جماعتوں کے پاس ایسا لیڈر موجود نہیں جس کی شخصیت کرشماتی ہو اور جس کے انتخابی وعدوں پر ایک ارب سے زیادہ عوام اعتماد کر سکیں۔
انڈین نیشنل کانگریس کی کمزوری تو اس حقیقت سے واضح ہے کہ اسے پارٹی کی قیادت کیلئے غیرملکی خاتون سونیا گاندھی پر اعتماد کرنا پڑا لیکن اب سونیا گاندھی ہی نہیں ان کے نامزد وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کا طلسم بھی ٹوٹ چکا ہے اور پنڈت نہرو کے خاندانی وارث راہول گاندھی نے فی الحال اگلے انتخابات میں وزارت عظمیٰ کی نامزدگی سے گریز کر لیا ہے۔ دوسری طرف بی جے پی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری 2006 ء کے انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے بعد عملی طور پر ریٹائر ہو چکے ہیں اور ایل کے ایڈوانی اپنے بڑھاپے سے مات کھا کر سیاست بدر ہو چکے ہیں۔ اب بی جے پی کے پاس صوبہ گجرات کے جلاد مسلم دشمن وزیراعلیٰ نریندرا مودی کے سوا کوئی امیدوار نہیں جو بی جے پی کا وزیر اعظم نامزد کیا جا سکتا ہے اور مودی کے ہاتھ 2002ءکے مسلم کش فسادات میں خون سے رنگے ہوئے ہر چیز وہ پندرہ فیصد مسلم آبادی کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگ رہا ہے اور بی جے پی کے سربراہ راج ناتھ سنگھ بھی مسلمانوں کے سامنے سرجھکانے کا ڈرامہ رچا رہا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ مودی کے ڈسے ہوئے مسلمان کیا اب پھر دھوکا کھا جائیں گے؟ اور کیا وہ نریندر مودی اور راج ناتھ سنگھ کی سازش کو اب اچھی طرح سمجھ نہیں گئے اور کیا سونیا گاندھی کی کانگرس بھی مسلمانوں کے ووٹ حاصل کر لی گی جو نرسیما راﺅ کے دور میں اور پھر بعد میں بھی مسلمانوں کو ذبح ہوتے دیکھتی رہی ہے۔
ان حالات میں ”عام آدمی پارٹی“ کا منظر لے پر ابھرنا۔ دہلی کی ریاست میں حکومت بنا لینے اور پھر حکومت چھوڑ دینے کا عمل اپنے سیاسی اثرات عیاں کر رہا ہے۔ اس پارٹی کے سربراہ اروند گجری وال کے بارے میں عوام کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ وہ اقتدار کا حریص نہیں اور صرف عوام کی بہتری چاہتا ہے۔ چنانچہ اس کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے اور بنا اس سے وزیراعظم کے عہدے کیلئے انتخاب کا اعلان حیرت انگیز نظر نہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے عوام گجری وال کی کامیابی کیلئے ہر سطح پر کام کر رہے ہیں اور ”عام آدمی پارٹی“ بھارت کی نئی سیاسی قوت ہے جو زبردست ہے، طاقتور ہے، اپنی قوت عوام سے حاصل کرتی ہے اور کانگریس اور بی جے پی کیلئے حقیقی خطرہ ہے۔