ڈاکٹرغلام اکبر نیازی، احسن اقبال اور کانووکیشن

ڈاکٹر غلام اکبر نیازی سے میری ملاقات جدہ سعودی عرب میں ہوئی اُس وقت اُن کا شمار سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے انتہائی مقتدر حلقوں میں ہوتا تھا ۔ یہ غالباً 1996 کی بات تھی ، محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ وزیراعظم تھیں، جب نیازی صاحب ایک روز اچانک میرے دفتر میں تشریف لائے اور دلگیر آواز میں مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ رانا صاحب ہمارے ایک قومی اخبار نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی صاحب عمرہ کی سعادت کیلئے سعودیہ میں تشریف لائے ہیں وہ جب بھی جدہ تشریف لاتے ہیں تو پاکستانی قونصل خانے کی جانب سے اُنہیں استقبالیہ میں ضرور مدعو کیا جاتا ہے لیکن اِس مرتبہ ایسا کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ جدہ میں نوائے وقت کے نمائندے امیر محمد خان قونصل جنرل کے دفتر میں اُنہیں قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہیں ۔ آپ اگر اُن کے دفتر میں جا کر کوشش کریں تو بات بن سکتی ہے ۔میں نے نیازی صاحب کی تجویز سے اتفاق کیا اور قونصل جنرل صاحب کے کمرے میں گیا تو امیر محمد خان وہاں موجود تھے ۔ جو بات نیازی صاحب نے مجھ سے کی تھی وہی بات جناب امیر محمد خان نے مجھ سے کی تو میں نے قونصل جنرل صاحب سے درخواست کی کہ پاکستانی قومی اخبار کے چیف ایڈیٹر کے اعزاز میں استقبالیہ دینا تو پاکستانی سفارتی مشن کیلئے بھی اعزاز کی بات ہے ۔ مجھے اُس وقت بہت افسوس ہوا جب قونصل جنرل صاحب نے جواب دیا کہ اُنہیں اپنی نوکری عزیز ہے ۔ آپ بھی ایک سینئر سفارت کار ہیں اور اگر آپ کو اپنی نوکری عزیز نہیں ہے تو آپ اُنہیں اپنی رہائش گاہ پر کیوں دعوت نہیں دیتے؟ البتہ اُنہیں نے مجھ سے یہ وعدہ ضرور کیا کہ وہ اِس استقبالئے میں ضرور شرکت کریں گے ۔ میں اُنہیں جواب دیا کہ میری نوکری کو کچھ نہیں ہوگا کیونکہ میں نے اپنی زندگی تو ملک اور قوم کیلئے وقف کی ہوئی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اُس لمحے تک جناب نظامی صاحب سے میری جان پہچان نہیں تھی لیکن میں نے یہ استقبالیہ اپنی رہائش گاہ کے سوئمنگ پول کے لان میں منعقد کیا جہاں پاکستانی صحافیوں کے علاوہ، سعودی عرب کے مقتدر چیف ایڈیٹروں جن میںعرب  نیوز ، اُردو نیوز اور سعودی گزٹ کے چیف ایڈیٹرز کے علاوہ غیر ملکی سفارتی نمائندوں اور پاکستانی کمیونٹی کی مقتدر شخصیتوں نے بھی شرکت کی ۔ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کو اِس استقبالیہ میں شرکت کرکے بہت خوشی ہوئی اور یہی نظامی صاحب کیساتھ میرے پُرخلوص تعلقات کا نقطہ آغاز تھا ۔ ڈاکٹر غلام اکبر نیازی بھی اِس استقبالیہ میں تشریف لائے اور پھر دوران گفتگو مجھے یہ معلوم ہوا کہ نیازی صاحب خادم الحرمین الشریفین ملک عبدللہ بن عبدالعزیز کے ذاتی سٹاف آفیسر ہیں چنانچہ اِس سفارتی پارٹی کی تشہیر سعودی عرب کے تمام انگریزی، عربی اور اُردو اخبارات کے علاوہ پاکستانی اخبارات میں بھی بخوبی ہوئی۔ اگلے روز مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو سے قربت رکھنے والے ایک دیرینہ صحافی دوست مرحوم اظہر سہیل کا فون موصول ہوا۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ محترمہ کو اِس پارٹی کی تفصیلات ملی تھیں اُنہیں خوشی ہے کہ آپ نے اِس پارٹی کے ذریعے سعودی عرب میں پاکستان کی عزت افزائی کی ہے۔ میں نے قونصل جنرل کو یہ بات بتائی تو وہ حیران ہوئے کیونکہ یہ رپورٹ کسی ایجنسی نے نہیں بلکہ سفارتی ذرائع سے وزیراعظم کو بھیجی گئی تھی جس کا اثر اُلٹا ہوا تھا ۔ 
بہرحال سرکاری ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر غلام اکبر نیازی نے اسلام آباد کے علاقے بارہ کہو میں ایک میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی بنیاد رکھی ہے ۔ گذشتہ دنوں مجھے اُن کی جانب سے کنونشن سینٹر میں اُن کے ادارے کے پہلے کانوکیشن میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا تو بہت ہی خوشگوار حیرت ہوئی ۔ مسلم لیگ (ن) کے وزیر جناب ڈاکٹر احسن اقبال اِس کانوکیشن کے مہمان خصوصی تھے۔ اِس کانوکیشن کی ایک خوبی یہ تھی کہ میڈیکل گریجویٹس سے لئے جانے والے حلف میں اپنی زندگی کو انسانیت کی خدمت سے منسلک کرنے کا وعدہ لیا گیا تھا ۔ جب یہ میڈیکل گریجویٹس حلف کے عمل سے گزر رہے تھے تو میری سوچ کے دائرے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بے روزگاری کے سائے میں خودکشیوں کی تعداد میں اضافے کے رجحان ، بھوک و افلاس سے تنگ خاندانوں کا اپنے بچوں کے ہمراہ دریائوں میں چھلانگ لگا کر ہمیشہ کیلئے گم ہوجانے والے اور ٹرینوں کے سامنے آکر خودکشیاں کرنے والے مجبور و بیکس انسانوں کے گرد گھوم رہی تھی۔ ملکی اشرافیہ دولت جمع کرنے میں لگی ہے ، چاروں اطراف کرپشن و بدعنوانی نے پنجے گاڑھے ہوئے ہیںجبکہ غربت و افلاس کے مارے لوگ زکواۃ و خیرات کی تلاش میں مار ے مارے پھرتے ہیں۔ ایک جانب چند خاندانوں کی دولت ہے تو دوسری جانب قوم کی اکثریتی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔میں اِسی فکر میں غلطاں تھا کہ احسن اقبال کی تقریر شروع ہوگئی ۔مجھے حیرانی ہوئی کہ جناب احسن اقبال بھی دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے سے ہی سرشار نظر آئے چنانچہ اُن کی تقریرمیں انسانیت کی خدمت کو اُجاگر کرتے ہوئے علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کی تعلیمات کا تذکرہ باعث اطمینان تھا ۔ اپنی تقریر میں احسن اقبال نے ڈاکٹری کے منصب کو انسانیت کی خدمت کا عظیم منصب قرار دیتے ہوئے ڈاکٹری کے شعبے میں داخل ہونے والے نوجوان ڈاکٹروں اور لیڈی ڈاکٹروں کی توجہ خصوصی طور پر ملک میں غربت و افلاس کے مارے ہوئے مریضوں کی جانب کرائی ۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ آپ کے والدین نے کثیر رقومات خرچ کرکے آپ کو اِس منصب پر فائز کرنے کیلئے اپنی بہت سی خواہشات کو قربان کیا ہو گا لہذا جب آپ اعلیٰ منصبوں پر فائز ہوں تو اپنے والدین کو مت بھولیں ، اپنے اساتذہ کو مت بھولیں اور پھر انسانیت کی خدمت کے جذبے کو زندہ رکھتے ہوئے غریب مریضوں کے علاج معالجے سے بھی غافل نہ ہوں کیونکہ دکھی انسانیت کی خدمت ہی آپ کو اقبال کے شاہین کی طرح عزت و حرمت کی بلندیوںپر لے جائے گی ۔ احسن اقبال کی زندگی کا یہ پہلو میرے لئے بھی اور تمام حاضرین کیلئے بھی باعث افتخار تھا چنانچہ اُن کی تقریر کے اختتام پر کنونشن سنٹر بھرپور تالیوں سے گونج اُٹھا ۔
یہ اَمر بھی باعث اطمینان ہے کہ نیازی صاحب اپنے کالج کے سامنے چار سو مریضوں کیلئے ہسپتال بنا رہے ہیں۔ مجھے اور کنونشن سنٹر میں موجود میرے جیسے سینکڑوں لوگوں اور والدین کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی جب اِسٹیج سے یہ اعلان کیا گیا کہ نیازی صاحب کے اِس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے میڈیکل گریجویٹس میں سے 16 ڈاکٹروں نے اپنی اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر گولڈ میڈل بھی حاصل کئے ہیں جس میں لیڈی ڈاکٹروں نے نوجوان ڈاکٹروں کو ہر شعبے میں مات دے دی تھی ۔ سولہ میں سے بارہ لڑکیوں اور چار لڑکوں نے گولڈ میڈل حاصل کئے ۔ لڑکیوں میں ڈاکٹر ثنا فاطمہ ، ڈاکٹر نمرہ تہذیب، ڈاکٹر ماہ جبین ، ڈاکٹر سدرہ برلاس ، ڈاکٹر ثانیہ خالد ، ڈاکٹر رعنا اعجاز ، ڈاکٹر عائشہ رفاق ، ڈاکٹر ماہم خان ، ڈاکٹر کومل رضا ، ڈاکٹر بشرہ ظفر ، ڈاکٹر انم اظہر اور ڈاکٹر وردہ آفتاب شامل تھیں جبکہ نوجوان مرد ڈاکٹروں میں ڈاکٹر رمیض احمد مغل ، ڈاکٹر مسکین اللہ خان ، ڈاکٹر وقاص ظفر اور ڈاکٹر حیتم آکاش شامل تھے ۔ کانوکیشن کے بعد فارغ اتحصیل ہونے والے چند ڈاکٹروں سے میری ملاقات ہوئی تو یہ جان کر خوشی ہوئی کی ڈاکٹر نیازی اپنے ادارے میں میرٹ کو ترجیح دیتے ہیں اور طلباء و طالبات کو کالج ہوسٹل میں رہتے ہوئے اسلامی شعائر کیمطابق زندگی گزانے پر زور دیتے ہیں ۔ بہرحال ڈاکٹر نیازی نے سعودی عرب سے واپس آکر کالج اور ہسپتال کے قیام کے ذریعے دیگر بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے ایک درخشاں مثال قائم کر دی ہے ۔آئیے بیرون ملک پاکستان کا سرمایہ منتقل کرنے کے بجائے اِس بیش قیمت سرمائے کو پاکستان واپس لائیں اور ملک سے غربت و افلاس ختم کرنے کیلئے ایسے ہی درخشاں ادارے قائم کریں ، اللہ ہمارا حافظ و ناصر ہو۔

ای پیپر دی نیشن