طالبان کے ساتھ مذاکرات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے‘ مکمل حمایت کرتے ہیں: برطانیہ

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ/ این این آئی+ بی بی سی) وزیر داخلہ چودھری نثار سے افغانستان میں برطانوی ہائی کمشنر رچرڈ سٹیگ اور پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر فلپ بارٹن نے ملاقات کی۔ وزیر داخلہ نے اس موقع پر کہا کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد عالمی برادری کو افغانستان کیلئے جامع حکمت عملی بنانی چاہئے۔ افغانستان کی صورتحال پیچیدہ ہے۔ حکومت پاکستان افغانستان کے معاملے میں غیرجانبدارانہ کردار ادا کر رہی ہے۔ قومی سلامتی پالیسی سے دہشت گردی کے چیلنجز سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ رچرڈ سٹیگ نے کہا کہ خطے میں امن و امان کے قیام میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔ پاکستان میں ہائی کمشنر فلپ بارٹن نے کہا کہ مقامی عسکریت پسندوں سے بات چیت کا عمل پاکستان کا خالصتا اندورنی معاملہ ہے۔ خودمختار ملک کی حیثیت سے پاکستان داخلی سلامتی کیلئے کئے جانے والے تمام اقدامات میں آزاد ہے، ہم حکومت پاکستان کے طالبان کیساتھ مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں اور یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کی سیاستی اور عسکری قیادت مستحکم افغانستان کیلئے متفق ہے۔ وہ افغانستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر سر رچرڈ سٹیگ کے ہمراہ ایک مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی حکومت مذاکرات ہی کو دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لئے ضروری سمجھتی ہے تو اس عمل کو اختیار کرنے میں مضائقہ نہیں اور اگر مستقبل میں کسی مرحلے پر اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے طاقت استعمال کی جائے گی تو اس صورت میں بھی یہ فیصلہ حکومت پاکستان کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ طالبان کی جانب سے اعلان کردہ فائر بندی کو افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے عمل سے کسی صورت جوڑا جا سکتا ہے۔ کابل میں تعینات برطانوی سفیر سر رچرڈ سٹیگ نے کہا کہ ملا محمد عمر کی قیادت میں سرگرم جنگجوئوں کی دھمکیوں اور مخالفت کی وجہ سے صدارتی انتخابات جزوی طور پر متاثر ہو نے کے خدشات موجود ہیں تاہم آج کا افغانستان ماضی سے کافی مختلف ہے۔ بی بی سی کے مطابق رچرڈ سٹیگ کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کے طالبان سے خفیہ مذاکرات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور اب حکومت شدت پسند رہنماؤں کی زیادہ بڑی تعداد سے بات چیت میں مصروف ہے جس میں رچرڈ سٹیگ کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں یہ مذاکرات یعنی عوام کے سامنے ہوں، ہمارے پاس اس بات کے ثبوت ہیں کہ افغان حکومت اب زیادہ تعداد میں طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے۔ کوئٹہ اور پشاور (مبینہ طالبان شوریٰ) میں اب احساس پیدا ہوا ہے کہ افغانستان اب ماضی والا نہیں رہا اور تبدیل ہوگیا ہے۔ اگر وہ اب اقتدار میں آنے کی کوشش کریں گے تو انہیں زیادہ بھاری جانی اور مالی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ خفیہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہو رہے ہیں جو کہ پائیدار امن کے لئے ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ اتحادی افواج کے انخلا کے بعد افغان فوج اور پولیس کو سالانہ چار ارب ڈالرز کی امداد دی جاتی رہے گی لہٰذا ان کے کمزور ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ فلپ بارٹن نے کہا کہ میرے خیال میں جو فیصلے پاکستان میں ہو رہے ہیں وہ پاکستان کے مفاد کو دیکھ کر کئے جا رہے ہیں نہ کہ افغانستان کو۔ مجھے نہیں معلوم کہ ٹی ٹی پی کیوں مذاکرات کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں پاکستان اب مکمل طور پر افغانستان میں امن کا خواہاں ہے۔ دریں اثناء وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ مدارس عربیہ کا ملک میں کردار ہمیشہ مثبت رہا ہے، مدارس عربیہ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بات پاکستان علماء کونسل کے مرکزی چیئرمین حافظ محمد طاہر محمود اشرفی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ علماء او ر مدارس عربیہ کے ذمہ داران افواہوں اور مفروضوں پر یقین نہ کریں، حکومت مدارس عربیہ کی قدر کرتی ہے اور قومی سیکورٹی پالیسی میں مدارس عربیہ کے خلاف کوئی سازش نہیں کی جا رہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن