پنجاب یونیورسٹی میں عارفانہ کلام اور برقعے میں گلوکارہ

سیاسی خبروں کی خون آلود پریشانیوں میں اٹا اور لتھڑا ہوا میں پنجاب یونیورسٹی کے دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر کامران مجاہد کے پاس پہنچا تو انہوں نے مجھے کہا کہ عارفانہ کلام سنو گے۔ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا کہ اب انہوں نے یہ کام بھی شروع کر دیا ہے۔ وہاں جو بھی آدمی آ رہا تھا اسے عارفانہ کلام سنوانے کی خوشخبری دی جا رہی تھی کچھ دیر میں وہ مجھے لے کے ہال میں گئے۔ تھوڑی دیر پہلے وہ یہاں سے اٹھ کے دفتر گئے تھے۔ انہیں شعروادب اور ذوق وشوق کی روشنیوں سے پیار ہے اور وہ پنجاب یونیورسٹی کو ایک ایسا ماحول دینا چاہتے ہیں کہ علمی اور تعلیمی ترقی کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور فنی میدانوں میں بھی پوری دلچسپی فروغ پائے۔ کتابوں کی نمائش اور دوسری محفلوں میں وہ شاعری سناتے ہیں تو آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ انہیں نامور شاعر مجید امجد بہت پسند ہے۔ اس حوالے سے وہ ڈاکٹر خواجہ زکریا سے ملاقات میں بڑی موج میں ہوتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ڈاکٹر خواجہ زکریا کو مجید امجد پورے کا پورا یاد تھا۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کا بھی یہی حال تھا۔ خواجہ صاحب کا اب بھی یہی حال ہے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران عالمی امور اور مسائل کی طرف نکل گئے ہیں ایسی کئی کتابیں ان کی چھپ چکی ہیں۔ 

عارفانہ کلام کے ساتھ ان کی وابستگی ایک نئے منظر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ طلبہ وطالبات دوسری دفعہ اپنے درمیان انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے عارفانہ کلام توجہ سے سننا صوفیوں کی صحبت میں بیٹھنے کی طرح ہے۔ اتنا لطف دوسرے گیت اور غزلیں سن کر نہیں آتا جتنا عارفانہ صوفیانہ کلام سن کر آتا ہے۔ عارفانہ کلام عاشقانہ کلام بھی ہے۔ اس طرح رومانیت، روحانیت کو رلایا ملایا جاتا ہے۔ اہل دل اور اہل عشق ایک ہی قبیلے کے لوگ ہوتے ہیں۔ طلبہ و طالبات کا جوش و خروش اور ذوق و شوق یکجان ہوتا جا رہا تھا۔ عجیب سرمتی ماحول پر طاری تھی۔
میرے ساتھ والی نشست پر ڈاکٹر مجاہد کامران عارفانہ نغموں کے لئے فرمائش بھی کر رہے تھے۔ اردو زبان میں بھی عارفانہ کلام سنایا گیا مگر اس کلام کے لئے کیفیت پنجابی زبان سے بنتی ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ سب اعلی مقام کے صوفی شاعر صرف پاکستانی پنجاب میں ہیں۔ اس لئے ہماری پنجابی جسے پاکستانی پنجابی کہنا چاہئے صوفیوں کی زبان ہے۔ بھارتی پنجابی مشکل ہے۔ یہاں انتہا پسند پنجابی اسی مشکل پنجابی کو نافذ کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے اپنی اردو کو ہندی کہنا شروع کر دیا ہے اور ہماری اردو زبان سے مختلف زبان بنا دیا ہے۔ ابھی تک بھارت میں بننے والی فلموں میں اردو چلتی ہے اور گیت تو ہوتے ہی اردو زبان میں ہیں مگر وہ اپنی فلموں کو ہندی فیچر فلم کہتے ہیں۔
ہمارے ہاں بابا فرید سے لے کر خواجہ فرید تک جتنے صوفی شاعر ہیں، سلطان باہو، وارث شاہ، بلھے شاہ، شاہ حسین اور میاں محمد بخش کی شاعری میں لفظ و خیال میں کوئی مماثلت ہے مگر جب انہیں گایا جاتا ہے تو ہر شاعری کی گائیکی کے لئے مختلف دُھن بنتی ہے۔ اس طرح اس کلام میں ایک جداگانہ تاثیر پیدا ہو جاتی ہے۔
نوجوان طلبہ وطالبات میں عارفانہ کلام کے لئے اتنی دلچسپی دیکھ کر میں خوش ہوا جو نوجوان کمپیئرنگ کر رہا تھا اس نے بھی ایک سماں پیدا کیا۔ حسب حال اشعار بھی پڑھے۔ گوجرانوالہ سے آئی ہوئی ایک طالبہ پورے پردے میں تھی مگر اس نے بڑے اطمینان اور حوصلے سے عارفانہ کلام سنایا۔ کوئی کمپلیکس اس کے کسی انداز میں نہ تھا۔ وہ حافظہ قرآن بھی تھی۔ حافظہ شائستہ نے مجھے بہت متاثر کیا۔ وہ مجھ سے ملی جب میں اپنی گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔ میرے خیال میں زمانے کے جدید تقاضوں سے سنوری ہوئی لڑکیوں کے درمیان اس کا ہونا ہی ایک پیغام کی طرح تھا ایسے موقعوں پر مجھے نامور ادیب ممتاز مفتی کا یہ حملہ بار بار یاد آتا ہے جو انہوں نے نامور ادیبہ بانو قدسیہ کے لئے کہا ہم بانو قدسیہ کو بانو آپا کہتے ہیں۔
’’وہ اندر سے قدیم اور باہر سے جدید ہے‘‘ مگر حافظہ شائستہ تو اندر سے جدید اور باہر سے قدیم نکلیں۔ میرے خیال میں اگر کوئی اچھی لڑکی چادر لے کر بھی گھر سے باہر آئے تو اس کے لئے اتنا ہی احترام دل میں ہوتا ہے جو حافظہ شائستہ کے لئے ہے۔ جب وہ برقعے میں پورے انہماک اشتیاق اور انکشاف سے عارفانہ کلام گا رہی تھی تو بڑی اچھی لگ رہی تھی۔
مجھے بہت اچھا لگا کہ وہاں پروفیسر چشتی کے علاوہ بھی دو ایک پروفیسر ہوں گے۔ مگر وہاں بہت دیر تک وی سی ڈاکٹر مجاہد کامران موجود رہے۔ دوسری دفعہ وہاں گئے اور مجھے بھی ساتھ لے گئے جب کہ انہیں کہیں اور بھی جانا تھا۔ جانا تو مجھے بھی تھا مگر میں آخر تک بیٹھا رہا اور مجھے ایک تقریر بھی کرنا پڑی۔ ایسے میں میرے اندر نغمگی مجھے بے قرار کرتی رہی اور میں نے چند منٹ بچوں اور بچیوں سے کھل کر بلکے کھل کھلا کر بات کی میں کچھ لبرٹی لینے کی بھی کوشش کرتا ہوں کہ میں طلبہ و طالبات میں فرق بالکل نہیں کرتا جس طرح بچوں میں فرق نہیں ہوتا کہ وہ بچہ ہے یا بچی ہے۔
چائے کی میز پر بہت بچے بچیاں مجھے ملنے آئیں۔ وہاں ڈاکٹر شفیق بھی تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کی باتیں ہوا کا تازہ جھونکا تھیں۔ میں نے کہا میرے لئے یہ تقریب اور طلبہ وطالبات کا جوش و خروش ہوا کا تازہ جھونکا ہے جب گورنمنٹ کالج ہم پڑھتے تھے تو ڈاکٹر نذیر پرنسپل تھے۔ وہ بھی سائنس کے آدمی تھے مگر شعروادب اور موسیقی کے دلدادہ تھے۔ انہوں نے تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں کو ہم نصابی سرگرمی بنا دیا تھا۔ ان کے ساتھ طلبہ و طالبات کی محبت اور احترام دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ میں گورنمنٹ کالج میں ’’راوی‘‘ کا ایڈیٹر تھا اور صرف ہم نصابی سرگرمیوں میں سرگرم رہتا تھا ایک بار ڈاکٹر نذیر نے مجھے کہا کہ تخلیقی معرکہ آرائی اس ماحول میں ہوتی ہے جہاں کچھ آزادی بھی ہو۔ اور خواہ مخواہ کی پابندیاں نہ ہوں۔ یہ کرو وہ نہ کرو۔ یہ بات غیر اخلاقی ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو پھر اس گھٹن میں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ پنجاب یونیورسٹی میں ڈاکٹر مجاہد کامران نے ایسا ماحول تعمیر کرنے کی کامیاب کوشش کر رکھی ہے کہ ساری عمر لوگوں کو مادر علمی یاد آتی ہے۔
پروفیسر چشتی معروف گلوکار اور نعت خواں اعظم چشتی کے صاحبزادے ہیں۔ اعظم چشتی بے نیاز آدمی تھے۔ گائیکی تو عبادت کی طرح سمجھتے تھے۔ محفل میں پروفیسر چشتی نے گفتگو کی اور گیت بھی سنایا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ موسیقی میں ایسے لوگ بھی ہیں۔ اب ایک نیا زمانہ یہاں شروع ہوا ہے۔

ای پیپر دی نیشن