شاہد ندیم احمد
س: اخبارات کی یہ بھرمار کیا صحافت کیلئے نقصان دہ نہیں ہے؟
مجید نظامی: بالکل یہ نقصان دہ ہے، لیکن معاشرے کی دیگر اچھائیوں، برائیوں کی طرح آپ کو صحافت کا یہ دور بھی قبول کرنا پڑےگا، جس میں اچھے برے دونوں طرح کے اخبارات اور چینلز سامنے آرہے ہیں۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔
س: ماضی میں ایڈیٹر تخلیق کار اور صحافی بامقصد صحافت کرتا تھا، آج یہ دونوں چیزیں ناپید ہوچکی ہیں، ایڈیٹر مینجمنٹ کررہا ہے اور صحافی بے مقصد صحافت میں ملوث ہے۔ اس صورتحال سے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں؟
مجید نظامی: ایڈیٹر کا صرف تخلیق کار ہونا ضروری نہیں، میں اپنی مثال دیتا ہوں کہ میں گزشتہ 45 برس سے مینجمنٹ اور صحافت دونوں کررہا ہوں، میرا کوئی جنرل مینجر نہیں ہے، صرف سرکولیشن اور اشتہارات کے مینجرز ہیں، میں مینجمنٹ کے ساتھ ساتھ پوری اخباری پالیسی خود چلا رہا ہوں۔ اخبار میں کیا چھپے گا، کیا لکھا جائے گا، یہ میں خود طے کرتا ہوں۔ مولانا ظفر علی خان مشہور ایڈیٹر ہیں، انکی نظم پہلے صفحے پر چھپتی تھی، حالانکہ لکھنے والے شائد کوئی اور تھے، اسی طرح ” ڈان“ کی مینجمنٹ ایڈیٹر شپ بدلتی رہی، پہلے اس کی ملکیت مسلم لیگ اور قائداعظمؒ کے پاس تھی، پاکستان بنا تو ہارون برادرز کے پاس چلا گیا اور انکی فیملی کا پرچہ بن گیا۔ پاکستان ٹائمز، امروز کی پالیسی لیفٹسٹ تھی، میاں افتخار الدین اسکے مالک تھے جو پروگریسو لیفٹسٹ تھے، ان پر الزام تھا کہ انہیں نیوز پرنٹ مشرقی یورپ سے مفت ملتا تھا، اس پر انکی گرفتاری بھی ہوئی، یہ پالیسی تو ہے لیکن رول نہیں کہ ایڈیٹر تخلیق کار ہو اور مینجمنٹ نہ کرے۔
س: کیا آپ صحافی کے کردار سے مطمئن ہیں؟
مجید نظامی: ذاتی طور پر تو نہیں، میں سالہا سال اے پی این ایس اور سی پی این ای کا صدر رہا۔ ضیاءالحق کے دور میں مجھے انہوں نے دونوں تنظیموں کا صدر چن لیا، میں نے انہیں کہا کہ مجھے تم لوگوں نے اس لئے صدر بنایا ہے کہ یہ ضیاءالحق کا دور ہے اور بلی کے گلے میں گھنٹی میں ہی باندھوں، اس سال میں نے اعلان کردیا کہ میں دوبارہ کبھی صدر نہیں بنوں گا، کچھ عرصے بعد ان کی دوبارہ درخواست پر میں پھر راضی ہوگیا لیکن پھر اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
اب میں نہ تو سی پی این ای، اے پی این ایس کے کسی اجلاس میں جاتا ہوں اور نہ ہی ان میں میرا کوئی عمل دخل ہے۔
س: کیا ان تنظیموں پر کسی خاص گروپ کی اجارہ داری ہے؟
مجید نظامی: اجارہ داری تو نہیں، البتہ گروپنگ ضرور ہے۔ ایک گروپ (اے) ہے، دوسرا (بی)۔ جس کی اکثریت ہوگی وہ منتخب ہوجائےگا۔ ایسی صورت میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انتخاب میرٹ پر ہوا ہے۔ کبھی ایک گروپ اقتدار میں آجاتا ہے کبھی دوسرا، میری رائے میں اصل جماعت سی پی این ای ہونی چاہئے جو ایڈیٹرز باڈی ہے۔ حکومت کا مقابلہ سی پی این ای کو کرنا چاہئے۔ اے پی این ایس تو اشتہارات کو کنٹرول کرتی ہے کہ اشتہارات کی حکومت یا ایجنٹوں نے ادائیگی کی ہے یا نہیں، لیکن آج وہ دور ہے کہ اے پی این ایس کی بھی اہمیت بن گئی ہے جو میرے خیال میں غیر ضروری ہے۔
س: آپ ایک اخبار کو لے کر چلے، آج ایک گروپ چلارہے ہیں، اس تمام سفر میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
مجید نظامی: یہ مشن حمید نظامی مرحوم لے کر چلے تھے۔ 40 ءمیں یہ 15 روزہ تھا، 42 ءمیں ہفت روزہ ہوا اور 44 ءمیں روزنامہ ہوگیا۔ اسکے بعد 62 ءتک اس مشن کیلئے وہ لڑتے رہے۔ 62 ءمیں وہ مارشل لاءکی گھٹن کا شکار ہوکر انتقال کرگئے۔ اس وقت میں لندن میں تھا، واپس آیا تو ابھی تنخواہیں ادا کی جانا تھیں۔ اس وقت اکثر لوگ سمجھتے تھے کہ یہ نوجوان ہے، مشکلات کا سامنا نہیں کرسکے گا اور ” نوائے وقت“ بند ہوجائے گا لیکن خدا کے فضل سے میں نے ان تمام مشکلات کا سامنا کیا۔ پہلے ” نوائے وقت“ صرف ایک جگہ سے نکلتا تھا، میرے دور میں اس کا چار جگہ سے آغاز ہوا، اسکے بعد میں نے ” دی نیشن“ نکالا، ہفت روزہ ” فیملی“ ” ندائے ملت“ کا آغاز کیا، چاہے اسے نظریہ ضرورت کہہ لیں کہ ہم نے انگریزی پرچہ نکالا، بچوں اور خواتین کیلئے میگزین شروع کئے۔ اس دوران اشتہارات کی بندش سمیت کئی مشکلات پیش آتی رہیں لیکن ہم ترقی کی منازل بھی طے کرتے گئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں نے تنخواہ یا اپنے واجبات نہیں لئے لیکن ایک ایسا دور بھی تھا کہ میں نے 6,6 ماہ تنخواہ نہیں لی اور جیسے تیسے گزارا کیا، سٹاف کو یہ علم تھا کہ ہم مشکلات سے گزر رہے ہیں جو شخص اس پورے نظام کو چلارہا ہے وہ ہم سے کئی گنا زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔ اس صورتحال میں میرے سٹاف نے میرا پورا ساتھ دیا اور جنہوں نے میرا ساتھ دیا میں نے کبھی انہیں فراموش نہیں کیا۔ اخبار خسارے کا سودا تھا لیکن ہم نے اسے خسارے کا سودا نہیں بلکہ مشن سمجھ کر جاری رکھا اور خدا نے ہمیں کامیابی دی۔
س: وقت نیوز میں بھی ” نوائے وقت“ کی پالیسی چلے گی اور یہ چینل کیوں لانا پڑا؟
مجید نظامی: یہ ہمارے قارئین کا مطالبہ ہے، ویسے بھی چینل اب وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ اس چینل کا نام بھی ” وقت“ ہے اور اس کی پالیسی بھی ” نوائے وقت“ ہی کی ہوگی۔
س: کیا اتنے چینلوں کی موجودگی میں الگ جگہ بناسکیں گے؟
مجید نظامی: ” نوائے وقت“ کا اپنا مزاج ہے، ہمارے اخبار میں بھارتی اداکاروں کی تصویریں چھاپنے کی اجازت نہیں۔ اگر کبھی کوئی چھاپ دے تو اسے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے، اس مزاج کے باوجود ” نوائے وقت“ کی اپنی ریڈر شپ ہے، لوگ اسے شوق سے پڑھتے ہیں، میری رائے میں پاکستان میں عوام کی بہت بڑی تعداد وہ سب کچھ نہیں دیکھنا چاہتی جو اسے دکھایا جارہا ہے، جس طرح ہم نے ماڈرن مزاج کے حامل اخباروں کے درمیان رہ کر الگ پہچان بنائی، اسی طرح مجھے یقین ہے کہ ہمارا چینل ” وقت“ بھی اپنا الگ مقام بنانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ (جاری)
س: آپ نظریہ پاکستان کے داعی ہیں۔ اسی نظریے کے تحت ملک حاصل کیا گیا، لیکن نظریہ اسلام کی تکمیل نہ ہوسکی، اس کی کیا وجوہات ہیں؟
مجید نظامی: دراصل مسلم لیگ ایسے ہاتھوں میں آگئی جو حقیقت میں مسلم لیگی نہیں تھے، یہ لوگ نہ تو قائداعظمؒ کے پیروکار تھے نہ ہی علامہ اقبالؒ کے ہم خیال ، لیکن منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے، مسلم لیگ کی قیادت انہی کو مل گئی۔ اب اگر ان سے ہم یہ توقع کریں کہ وہ ہمارے مشن کو لے کر چلیں تو یہ غلط ہے۔ انہوں نے وہی کیا جو انہیں کرنا چاہئے تھا، اس میں غلطی ہماری ہے جو ہم نے مسلم لیگ کی قیادت ان کے ہاتھوں میں آنے دی، ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اس وقت جو لوگ مسلم لیگ کی رہنمائی کے حقیقی دعویدار تھے، انہیں اس صورت حال پر قابو پانا چاہئے تھا۔
س: تو کیا قائداعظمؒ کا یہ فرمان کہ میری جیب میں چند کھٹے سکے ہیں، درست تھا؟
مجید نظامی: جی ہاں یہ کسی حد تک درست تھا، دراصل قائداعظمؒ کو زندگی نے مہلت نہیں دی، اگر وہ پاکستان بننے کے بعد مزید چند سال بھی زندہ رہ جاتے تو اپنی جیب سے یہ کھوٹے سکے نکال پھینکتے اور پاکستان کھرے سکوں کے حوالے کرکے جاتے۔
س : آپ سیاست اور صحافت کے حوالے سے مستند شخصیت ہیں، کیا کبھی سیاست میں آنے کا خیال نہیں آیا؟
مجید نظامی: سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو میرے بڑے مداح تھے۔ ان دنوں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے، ایک تقریب میں زین نورانی مجھے ملے اور کہا کہ خاص طور پر وزیراعظم جونیجو کا پیغام لے کر آپ کے پاس آیا ہوں، آپ گورنر پنجاب کا عہدہ قبول کرلیں۔ جب انہوں نے یہ بات کی تو نواز شریف قریب کھڑے تھے، ان کے تو چہرے کا رنگ ہی بدل گیا، ان کا یہ حال دیکھ کر میں نے کہا کہ میاں صاحب آپ پریشان نہ ہوں، میں گورنر کا عہدہ نہیں سنبھالوں گا، آپ بے فکر رہیں۔ دوسرا واقعہ میاں نواز شریف اور ان کے والد میاں شریف کا ہے، جب ذوالفقار علی بھٹو نے اتفاق فاﺅنڈریز کو ٹیک اوور کیا تو انہوں نے میرے پاس آنا شروع کردیا، اس وقت میں نواز یا شہباز کو نہیں جانتا تھا، رفتہ رفتہ ان سے بھی علیک سلیک ہوگئی، جب نواز شریف وزیراعظم بنے تو رفیق تارڑ کو صدر بنانے سے پہلے میاں شریف میرے پاس آئے اور مجھ سے صدر پاکستان بننے کی درخواست کی، مگر میں نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ میں جس کرسی پر بیٹھا ہوں ، اسے ہی سب سے باعزت سمجھتا ہوں، اس لیے مجھے یہ عہدہ قبول نہیں، میرا اور نواز شریف کا تین دن بھی گزارہ نہیں ہوسکتا، یہ میرے ہاتھوں ڈس مس ہوجائیں گے۔ دراصل میں اپنے نظریات پر بہت پختہ ہوں، کوئی دھمکی، لالچ یا پیشکش مجھے اپنے نظریات سے نہیں ہٹاسکتی۔
س: کیا آپ جیسی نڈر اور قدآور شخصیت سیاست کا حصہ بن کر بہتر کردار ادا نہیں کرسکتی؟
مجید نظامی: میرے خیال میں جو کردار میں صحافت میں رہ کر ادا کررہا ہوں، وہی سب سے بہترین ہے۔
س: کیا ایک صحافی اچھا سیاستدان نہیں بن سکتا؟
مجید نظامی: بن تو سکتا ہے لیکن وہ صحافت چھوڑ کر ہی بنے گا، لیکن میں صحافت نہیں چھوڑنا چاہتا۔
س: کیا جو صحافی سیاست میں ہیں وہ بہترین کردار ادا نہیں کررہے؟
مجید نظامی: راشدی صاحب ایوب خاں کے دور میں وزیر بنے، معروف کالم نویس ارشاد احمد حقانی، فاروق لغاری کی وزارت میں آئے، فاروق لغاری نے میرے بھتیجے کو بھی حکومتی عہدے کا لالچ دیا، انہوں نے مجھ سے پوچھا تو میں ناراض ہوا کہ آپ یہ فیصلہ خود نہیں کر پائے کہ آپ کو سیاست میں نہیں ہونا چاہئے۔ عطاءالحق قاسمی سفیر بنے، لیکن ان تمام لوگوں نے سیاست میں جاکر کونسا تیر چلایا ہے۔
س: کیا آج حکومت اچھے دانشوروں سے مشاورت نہیں کررہی یا اچھے دانشوروں کی کمی ہے؟
مجید نظامی: آج ملک میں ون مین رول ہے، سینٹ یا قومی اسمبلی کسی کی کوئی اہمیت نہیں جو ایک شخص کہتا ہے، اسی کے حکم پر عمل ہوتا ہے، ایسی صورتحال میں کسی کے اچھے مشوروں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے، ایسے لوگوں کے نزدیک تو کوئی دانشور پھٹک ہی نہیں سکتا، اس وقت کوئی حکومت نہیں، ون مین رول ہے، اس صورتحال کو اپوزیشن متحد ہوکر ہی درست کرسکتی ہے۔
س: کیا آپ صدارتی نظام کے قائل ہیں اور ون مین رول صدارتی نظام کا نعم البدل نہیں؟
مجید نظامی: میں صدارتی نظام کا نہیں، قائداعظمؒ کی جمہوریت کا حامی ہوں، اس میں سربراہ مملکت آئینی ہوتا ہے اور وزیراعظم عوام کا نمائندہ ہوتا ہے جو کاروبار مملکت چلاتا ہے۔ اگر صدر مشرف کا موجودہ نظام مزید 5 سال رہ گیا یعنی کل 12 سال، پھر اس گھوڑے سے اترنا بڑا مشکل ہوجائے گا۔ صدر مشرف خود کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں صدر یا تو مارے جاتے ہیں یا قتل ہوتے ہیں، خدا نہ کرے کہ ایسا ہو۔
س: کیا یہ خرابیاں سیاست دانوں کے منفی کردار کی وجہ سے پیدا ہوئیں؟
مجید نظامی: ظاہر ہے سیاستدانوں کا بھی قصور ہے، پاکستان بننے کے بعد ابتدائی 10 سال میں بھی ملک مسائل کا شکار تھا، لیکن اس وقت بھارت کے پیدا کردہ مسائل بھی تھے، کیونکہ خزانہ اس کے پاس تھا اور ہمارے پاس کچھ نہیں تھا لیکن بعد میں آئین کو توڑنے کی ایسی رسم چل پڑی جس نے رکنے کا نام ہی نہیں لیا۔
س: کیا ملک کیلئے انقلابی سوچ بہتر ہے یا جمہوری؟
مجید نظامی: جمہوریت سب سے بہتر ہے، روایتی سیدھی سادی جمہوریت جو امریکہ، برطانیہ میں ہے، یہ نہیں کہ آپ وردی میں رہتے ہوئے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ اور سرپرست بھی بن جائیں اور پھر کہیں کہ یہ آئینی اور قانونی ہے۔ آئین اور قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔
س: آج کشمیر کے حوالے سے بھارت کو مختلف حل پیش کئے جارہے ہیں کیا واقعی اسی دور میں یہ مسئلہ حل کرلیا جائے گا اور اس کا حل تھرڈ یا فورتھ آپشن ہی ہوگا؟
مجید نظامی: خدا نہ کرے کہ کوئی اور آپشن ہو، میں تو صرف ایک آپشن کے حق میں ہوں اور وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلے کا حل ہے، یعنی کشمیریوں کو حق خودارادیت دینا۔ اس کے علاوہ کوئی آپشن نہ تو ہونا چاہئے نہ ہی وہ کشمیریوں کو قبول ہوگا۔
س: کیا بھارت سے تجارتی یا دیگر تعلقات استوار کئے جانے چاہئیں؟
مجید نظامی: ہرگز نہیں، میں یہ تسلیم نہیں کرتا، میرا موقف یہ ہے کہ پہلے کشمیر کا تنازع حل کیا جائے، اس کے بعد تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جائے۔ میں نے نواز شریف سے بھی یہی کہا تھا کہ واجپائی کو نہ بلائیں، پہلے کشمیر کو لیں اور اگر اس کے لئے لڑنا بھی پڑے تو لڑیں کیونکہ اب ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ کشمیر اس لئے بھی اہم ہے کہ ہمارا تمام پانی کشمیر ہی سے آتا ہے، اگر آج ہم اس سے دستبردار ہوجائیں تو ہوسکتا ہے کہ بھارت ہمارا پانی روک کر کل کو ہمیں صومالیہ بنادے۔
راوی چناب سوکھ چکے ہیں، لاہور کا زیر زمین پانی کئی فٹ نیچے جاچکا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ ہے کہ پاکستان کا پانی نمکین ہوتا جارہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے ہمارا پانی روک رکھا ہے۔ قائداعظم ؒ نے اسی لئے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔
س: اس صورتحال میں نئے ڈیمز ہمارے لئے کس حد تک کارآمد ہونگے؟
مجید نظامی: موجودہ پانی کو استعمال میں لانے کے لئے ڈیمز ضروری ہیں، اگر وہ نہ بنے تو ہم دال روٹی سے بھی محروم ہوجائیں گے۔
س: کیا ملک کو بے شمار مصائب سے نکالنے کا صدر مشرف کا دعویٰ درست ہے؟
مجید نظامی: آپ دعوﺅں کو نہیں حقائق کو دیکھیں، اس وقت ملک میں جس قدر مہنگائی ہے، کیا ماضی میں کبھی تھی۔ امن و امان کی جو صورتحال ہے، ماضی میں کبھی اس حد تک بگڑی تھی؟
س: کیا ہم بیرونی طاقتوں کے حوالے سے مسائل کا شکار ہیں؟
مجید نظامی: یقینا بہت سے مسائل درپیش ہیں۔
س: بعض حلقے کہتے ہیں کہ صدر مشرف وقت کی ضرورت ہیں؟
مجید نظامی: آج جمہری طریقے سے منتخب کردہ عوام کی نمائندہ قیادت ہی وقت کی ضرورت ہے۔ فوج کا کام صرف سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور اس نے اکھنڈ بھارت کے اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے ایک سکیم بنا رکھی ہے جس پر عمل کررہا ہے، وہ سرحدوں کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ جو اس بات پر ڈٹے ہوں، ان سے نہ تو تجارت ہونی چاہئے نہ ہی دوستی۔ موجودہ صورت حال میں کشمیر ہمارے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے، اس لئے وقت کی ضرورت تو ایسی قیادت ہے جو ملک کے دفاع کی سوچ لے کر آگے چلے، نہ کہ لکیر مٹانے پر تلی ہو اور بھارتی حکمرانوں سے تعلقات بڑھانے کی خواہشمند ہو۔
س: اُمت مسلمہ اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے، آپ کے خیال میں وہ اپنا کھویا ہوا وقار کیسے بحال کرسکتی ہے؟
مجید نظامی: مسلم امہ کی صورت حال پاکستان سے بہتر نہیں، بلکہ بدتر ہوسکتی ہے۔ مصر، شام، سوڈان، لیبیا، صومالیہ، سعودی عرب، عراق ، ایران، افغانستان کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ ایران پر حملے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ اس کے بعد ہماری باری ہے۔ مسلم امہ پر انتہائی برا وقت آنے والا ہے جو خدا نہ کرے کہ آئے۔ اس کے باوجود مسلم امہ متحد نہیں ہورہی۔ امام کعبہ نے حال ہی میں سخت وارننگ دی ہے مگر پھر بھی کسی پر اثر نہیں ہورہا، اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے مسلم امہ پر عذاب نازل ہونا شروع ہوچکا ہے۔
س: آپ صحافت کے جس اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہیں، کیا اس مقام پر پہنچ کر مطمئن ہیں؟
مجید نظامی: میں صرف خود کو خدا کا عام بندہ سمجھتا ہوں، مجھے اس سلسلے میں کوئی زعم یا بڑائی نہیں، میں صرف اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کررہا ہوں اور اس کے لئے خدا کا شکر گزار ہوں کہ اس نے کسی حد تک یہ فرض ادا کرنے کی ہمت دی۔
س: کیا آنیوالی نسل آپ کے مشن کو آگے لے کر چلے گی؟
مجید نظامی: میں نے عارف نظامی کو ٹرینڈ کیا ہے، جیسے مجھے حمید نظامی نے کیا تھا، دعا گو ہوں کہ وہ اپنے والد اور میرے اس مشن کو آگے لے کر چلے۔
س: آخر میں کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
مجید نظامی: پاکستانی بھائیوں کیلئے یہی پیغام ہے کہ وہ متحد ہوکر وطن کی ترقی کیلئے کوشش کریں، پاکستان کی بہتری کیلئے سوچیں اور عملی طور پر کام کریں۔