سیاسی اور عسکری قیادتوں کے دہشتگردی جڑ سے اکھاڑنے کے دعوے اور کراچی میں رینجرز چوکی پر دستی بم حملہ
وزیراعظم محمد نوازشریف کی زیر صدارت ہونیوالے اجلاس میں گزشتہ روز ملک کے اندرونی اور بیرونی سلامتی سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور داخلہ و خزانہ کے وفاقی وزراء کے علاوہ ڈی جی آئی ایس آئی اور دوسرے حکام نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں پشاور بس دھماکے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی اور دہشت گردی کیخلاف جاری اپریشن کا جائزہ لیا گیا اور بالخصوص کراچی اپریشن میں نمایاں کامیابیوں پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ملک میں دہشت گردی اور انتہاء پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائیگا۔ عسکری حکام نے اجلاس کو اپریشن ضرب عضب کے حوالے سے بتایا کہ یہ اپریشن اب آخری مراحل میں ہے اور اب آئی ڈی پیز کی واپسی کو تیز کرنا ہوگا تاکہ اپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کو یقینی بنایا جاسکے۔ اجلاس میں کراچی اپریشن سے متعلق امور پر بھی شرکاء نے تبادلۂ خیال کیا۔ سرکاری حکام کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے اجلاس کے دوران حالیہ بم دھماکوں پر تشویش کا اظہار کیا اور اس امر پر زور دیا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے مؤثر اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔ آئی ایس آئی چیف نے شرکاء کو وزیرستان میں جاری اپریشن اور اسکی کامیابیوں کے حوالے سے بریفنگ دی اور آئی ڈی پیز کی بحالی کے حوالے سے اقدامات سے آگاہ کیا جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ متاثرین کی بحالی کیلئے درکار فنڈز فراہم کئے جائینگے۔ انکے بقول حکومت متاثرین میں اب تک 17‘ ارب روپے تقسیم کرچکی ہے۔
بے شک دہشت گردی کے ناسور سے مکمل نجات ہی ملک و قوم کی ضرورت ہے‘ اس سلسلہ میں شمالی وزیرستان میں جاری اپریشن ضرب عضب میں عساکر پاکستان کو نمایاں کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں اور اس سے پہلے جنوبی وزیرستان بشمول دیر‘ سوات‘ چترال‘ مالاکنڈ میں بھی دو مراحل میں ہونیوالے اپریشن سے دہشت گردی کے قلع قمع کی کوششیں بروئے کار لائی گئیں مگر بدقسمتی سے ملک میں پھیلے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ابھی تک جڑ سے نہیں اکھاڑا جاسکا۔ چنانچہ سیاسی اور عسکری قیادتوں کی جانب سے جب بھی قوم کو دہشت گردوں کی کمر توڑنے کی نوید سنائی جاتی ہے‘ اسی روز یا اس سے اگلے روز ملک کے کسی نہ کسی حصے میں دہشت گردی کی گھنائونی واردات ہوجاتی ہے۔ گزشتہ روز بھی اعلیٰ سطح کے اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادتیں بالخصوص کراچی اپریشن میں کامیابیوں پر اطمینان کا اظہار کررہی تھیں جبکہ دہشت گرد اس وقت بھی کراچی کے امن و امان کو تاراج کرتے ہوئے انسانی خون کی ہولی کھیل رہے تھے جنہوں نے گزشتہ روز کورنگی کراچی میں رینجرز کی چوکی پر دستی بم سے حملہ کیا جس سے تین اہلکار شدید زخمی ہو گئے۔ ڈی جی رینجرز سندھ کے بقول اس طرح کے حملوں میں لسانی اور دہشت گرد تنظیمیں ملوث ہو سکتی ہیں۔ ہفتے کے روز بھی کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کی دوبدو فائرنگ کی اطلاع موصول ہوئی جس میں ایک راہگیر جاں بحق ہوا۔ اس تناظر میں تو دہشت گردوں کیخلاف جاری اپریشن میں سیاسی اور عسکری قیادتوں کے کامیابی کے دعوئوں پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے کیونکہ اس ہفتے کے آغاز میں جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقدہ کورکمانڈرز میٹنگ میں انٹیلی جنس بنیادوں پر اپریشن تیز کرنے اور اپریشن کی کامیابیوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ ہوا تو اس سے اگلے ہی روز پشاور میں سنہری مسجد روڈ پر سیکریٹریٹ ملازمین کی بس میں دھماکہ ہو گیا جس میں 19 قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ ملک کی سلامتی کے درپے اندرونی اور بیرونی عناصر کی سرپرستی میں دہشت گرد ہماری سیاسی اور عسکری قیادتوں کو انکی کامیابیوں کے دعوئوں پر ترکی بہ ترکی جواب دے رہے ہیں۔
اگر ملک میں دہشت گرد پہلے ہی طرح دندناتے پھر رہے ہیں اور ہماری سکیورٹی فورسز کے حساس اداروں اور اہلکاروں تک کو نشانہ بنارہے ہیں تو دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے قوم کیلئے دل خوش کن منظر کشی سے گریز کیا جانا چاہیے کیونکہ کامیابی کے دعوئوں کے بعد دہشت گردوں کے کھل کھیلنے والے حقائق سامنے آتے ہیں تو اس سے قوم کو مزید مایوسی ہوتی ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں جہاں ہم نے ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصانات اٹھائے ہیں وہیں بلاشبہ عساکر پاکستان نے اپریشن کے دوران نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں تاہم ان کا پراپیگنڈا اس لئے مناسب نہیں کہ اس سے دہشت گرد مزید منظم اور فعال ہو کر ہماری سیاسی اور عسکری قیادتوں کے دعوے غلط ثابت کرنے کیلئے دہشت گردی کی نئی منصوبہ بندی میں مصروف ہو جاتے ہیں جس میں انہیں ہمارے سکیورٹی اداروں میں موجود خامیوں سے مدد ملتی ہے جو دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد نظر آتی ہیں جبکہ متعلقہ ادارے ان خامیوں پر قابو پانے کی جانب ہرگز توجہ نہیں دیتے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف دہشت گردی کی جنگ جیتنے میں یقیناً پرعزم ہیں اور وہ رواں سال کو دہشت گردی کے خاتمہ کا سال بھی قرار دے چکے ہیں جس کی بنیاد پر دہشت گردی کی جنگ میں سرخروئی حاصل کرنا ہی ہماری سول اور عسکری قیادتوں کا مطمعٔ نظر ہونا چاہیے تاہم اس کیلئے سکیورٹی اداروں میں موجود لیپس پر قابو پانا اور دہشت گردی کی جنگ میں عساکر پاکستان کے کردار پر قوم کا اعتماد مضبوط بنانا ضروری ہے۔ اس کیلئے محض زبانی جمع خرچ سے کام نہ لیا جائے بلکہ سیاسی اور عسکری قیادتوں کے اتفاق رائے سے طے کئے گئے نیشنل ایکشن پلان کی ایک ایک شق پر فوری اور مؤثر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ بہتر ہوتا کہ گزشتہ روز کے سول اور عسکری قیادتوں کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں اس امر کا بھی جائزہ لے لیا جاتا کہ 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر اب تک کتنا عملدرآمد ہو پایا ہے اور اسکی کسی شق پر ابھی تک سرے سے عملدرآمد ہی نہیں ہو پایا تو اسکی راہ میں کون سے عوامل حائل ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کی بیشتر شقوں پر ابھی تک عملدرآمد کا آغاز ہی نہیں ہو سکا‘ یہی وجہ ہے کہ شمالی وزیرستان کے اپریشن ضرب عضب اور کراچی ٹارگٹڈ اپریشن میں متعدد کامیابیوں کے باوجود دہشت گردوں کو سکیورٹی لیپس سے فائدہ اٹھانے اور انسانی جانوں سے کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس تناظر میں اصل ضرورت تو ملک میں پھیلے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کی ہے جس کیلئے نیشنل ایکشن پلان کو مکمل اپریشنل کیا جانا انتہائی ضروری ہے اور اس سلسلہ میں کوئی مصلحت آڑے نہیں آنے دینی چاہیے۔ اگر آپ نے دہشت گردوں کیخلاف مؤثر اپریشن کیلئے قائم کئے گئے ادارے ’’نیکٹا‘‘ کو ہی ابھی تک فعال نہیں کیا اور اسے ضروری فنڈز تک جاری کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی تو دہشت گردی کی جنگ میں کامیابیوں کے دعوے چہ معنی دارد؟
ہماری سرزمین پر دہشت گردی کی سفاکانہ وارداتوں میں یقیناً بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ اور دوسرے ملک دشمن عناصر کا بھی عمل دخل ہے جو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ انہیں نیشنل ایکشن پلان پر مؤثر عملدرآمد کرکے ہی نکیل ڈالی جا سکتی ہے ورنہ انسانیت کے دشمن یہ عناصر اپنے مذموم ایجنڈا کی بنیاد پر ہماری سرزمین کو انسانی خون سے رنگین اور ہمارے امن و سکون کو تباہ کرتے رہیں گے۔ آپ دہشت گردی کی جنگ میں کامیابیوں کے آئے روز کے اعلانات سے زیادہ نیشنل ایکشن پلان کو اپریشنل کرنے پر توجہ دیں۔ اس جنگ میں کامیابی یقیناً پورے ملک اور پوری قوم کی کامیابی ہے۔