آج کل پاکستان میں چھان پھٹک کا موسم ہے، زمیندار اور کاشتکار طبقہ چھان پھٹک کا مطلب خوب سمجھتا ہے۔ سمجھتی تو خواتین بھی ہیں کیونکہ فیشن ایبل آبادیوں میں بھی چھان بورا لینے والے صدائیں لگاتے رہتے ہیں۔ ہماری نئی نسل کی کچھ خوش نصیبیاں ہیں تو کچھ بد نصیبیاں بھی ہیں۔ وہ ہمیشہ مائوں سے پوچھا کرتی ہیں۔ ماں یہ چھان بورا کیا ہوتا ہے۔ اب اس برگر اور فاسٹ فوڈ والی نسل کو کون بتائے کہ پرانے وقتوں میں ایک سنہری رنگ کی دیسی گندم ہوا کرتی تھی، حکماء اور اطباء کہتے تھے کہ اس کے آٹے کو چھانے بغیر کھانا چاہیے کہ چھلنی سے نکالنے کے بعد آٹے کا ست نکل جاتا ہے، پھر بھی اس گندم کے آٹے سے جو چھان بورا نکلتا تھا گلے کی بہت سی تکلیفوں کے لئے اس کا جوشاندہ بنا کر پینے کی تلقین کی جاتی تھی، گھر میں بچی ہوئی روٹیوں کے ٹکڑے اور چھان بورا خریدنے والے دروازوں پر دستک دیتے تھے ، سستے داموں خرید کر مہنگے داموں پھر آٹے کی ملوں کو فروخت کر دیتے تھے، آٹے کی ملیں ان کو دوبارہ آٹا بنا لیتی تھیں، اب جو آٹا بازار میں بکتا ہے، اس میں سے مغز نکال لیا جاتا ہے، کبھی میدے کی صورت میں کبھی سوجی کی شکل میں۔
یہ آٹا چھان بورے کا چھان بورا ہوتا ہے، مگر کیا کریں غریب اور امیر اس آٹے کے بغیر چندرے پیٹ کے تقاضے نہیں پورے کر سکتے، ایک روٹی سے کہاں پوری پڑتی ہے۔
جس زمانے میں پنجاب کی بلندوبانگ حکومت نے سستی روٹی کا ڈرامہ کیا تھا، تب سے سستی روٹی مہنگی ہو گئی ہے اور پیڑے کا حجم کم ہوگیا ہے۔ اب دس روپے کی روٹی بھی کاغذی روٹی ہوتی ہے بلکہ اس میں اتنے سوراخ ہوتے ہیں کہ نیچے پڑی روٹیوں کا سراغ بخوبی لگایا جا سکتا ہے، توبہ ہے ہم بھی بات کرتے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ تو بات چھان بورے سے چلی تھی، آٹے سے تو اب چھان بورا نکلتا نہیں، ہاں کیڑے نکل آئیں سو بھی غنیمت۔
ہمارے ہاں بہت سے کام موسمی اور کاغذی ہوتے ہیں، یعنی یا تو اخبارات میں ہو رہے ہوتے ہیں، یا موسم کے تقاضے کے تحت۔ ویسے یہ ملک اللہ کے کرم سے چلتا رہتا ہے۔
بہت سی سیاسی پارٹیوں کے اندر سے باغی ارکان نکالنے کا موسم شروع ہو گیا ہے۔ کمال یہ ہے کہ جو مقربین خاص ہوتے ہیں وہی رقیب رو سیاہ بن کر ابھرتے ہیں۔ زمین پر کوئی نظام شمسی نہیں ہے۔ یہ خود ساختہ ستارے ’’ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے‘‘ والی سطح پر ہوتے ہیں۔
کہتے تو ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کا وجود ختم نہیں ہو سکتا۔ مگر ہر موسم میں ان کے اندر نئی روح پھونکنے کی کوشش کی جاتی ہے، ایک طرح سے یہ اچھا بھی ہے اگر ہر سیاسی پارٹی کو ایک ہی لیڈر چمٹا رہے تو وہ الطاف حسین بھائی بن جاتا ہے۔ اس کی صبحوں اور راتوں میں فرق نہیں رہتا۔
فاروق ستار نے ہاتھ میں جھاڑو پکڑ کر چھان پھٹک کا افتتاح کیا، کیا کوڑا کرکٹ صاف کرنا اتنا آسان ہے۔ جنہوں نے یہ کوڑا پھیلایا وہ بھی صاف کرنے سے عاجز ہیں۔ چنوتیاں کر رہے ہیں، نریندر مودی نے تخت نشین ہوتے ہی اپنی جنتا کو سوچھ بھارت کی نوید دی تھی۔ وہاں بھی تصویر اور سوشل میڈیا کی حد تک ایم پیز، فنکار اور سٹار جھاڑو پکڑے نظر آئے تھے، پھر بھی آج تک ان کی راہوں میں کوڑا پھیلا ہوا ہے۔ یہ تو گھر والی ہی جانتی ہے کہ کوڑا ایک ایسی چیز ہے جس کو روزانہ بڑی لگن سے صاف کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ مردوں کو اپنا اپنا گھر کوڑے کا دفینہ نظر آتا۔
مشرف کے جاتے ہی برخوردار بلاول کو اپنی ماں کے قاتلوں کا خیال آ گیا۔ حیرت ہے ان کے والد زرداری پانچ سال تک پاکستان کے سب سے بڑے عہدے پر متمکن رہے مگر انہیں ایک دن بھی مقتول ماں کی یاد نہیں ستائی، کیا یہ سب پیپلزپارٹی کے ایجنڈے میں ہے کہ ہر موسم میں کوئی بھی قتل ہو اسے کیش کرایا جائے۔ مشرف نے کسی کے کہنے پر وردی نہیں اتاری، اس نے صرف نظریہ ضرورت کے تحت وردی اتاری، نظریہ ضرورت ہر پارٹی اور ہر سیاسی شخصیت کے ایجنڈے میں شامل ہوتا ہے، یہی نظریہ، ضرورت آصف زرداری کو ایوان صدر میں لے گیا تھا اور یہی نظریہ ضرورت آج کل چھان پھٹک کے عمل سے گزر رہا ہے۔
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا؟
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا؟
وہ سیاسی پارٹیاں جو الیکشن ہار کر تھوڑے عرصے کے لئے زیر زمین چلی جاتی ہیں یا ذہن سے اتر جاتی ہیں، چھان پھٹک شروع ہوتے ہی اپنے دفاتر جھاڑنے لگتی ہیں اور کرسیوں پر رنگ و روغن کروانے لگ جاتی ہیں اور حکمران جماعت اپنی کارکردگی کا بول بالا کرنے لگتی ہے، پنجاب کے وزیراعلیٰ نے کہہ دیا کہ تعلیمی اہداف حاصل نہ کرنے والے افسروں کو عہدوں پر رہنے کا حق نہیں حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اعلیٰ افسروں کا کام صرف اقتدار اعلیٰ کی خوشنودی دیکھنا ہوتا ہے، اعلیٰ اہداف حاصل کرنا نہیں، ہمارے ہاں تعلیم کے ساتھ ایک منظم مذاق ہو رہا ہے، پرانے اور سرکاری سکولوں کی عمارتوں، فرنیچر اور غسل خانوں کی طرف توجہ دیئے بغیر نئے سکول کھول دیئے جاتے ہیں، پبلک کا رخ نئے سکولوں کی طرف ہو جاتا ہے اور قدیم سکول اپنی یتیمی کے دن کاٹتے رہتے ہیں، اگر ایک منظم وزارت تعلیم بنائی جاتی جو محض دکھاوے کے کام نہ کرتی بلکہ پنجاب کے دور دراز اور نظر انداز علاقوں سے کارکردگی شروع کرتی تو شاید اب تک اہداف پورے ہو جاتے۔ بھارت کے اداکار سنجے دت ابھی جیل یاترا کاٹ کر آئے ہیں اور انہوں نے بتایا ہے کہ جیل میں ان کے ساتھ عام قیدیوں کا سا سلوک ہوتا تھا۔ اس معاملے میں پاکستان کی جیلیں بہت صحت افزا ماحول رکھتی ہیں۔ یہاں سات سات سال رہنے والے پاکستان کے صدر بن کر نکلتے ہیں نکھر کر نکلتے ہیں، چھان پھٹک تو جیلوں کے اندر بھی ہونی چاہیے۔
پچھلے دنوں ہمارے ایک ہمسایہ ملک کا بادشاہ آیا ہوا تھا، جس کو ہمارے ملک کا بادشاہ بہ نفس نفیس خود ملنے کے لئے ایئر پورٹ گیا تھا، اس بادشاہ کو بھی اس کے ملک میں کرپشن کا بادشاہ کہتے ہیں، اس نے اپنی شاہانہ ادا یوں دکھائی کہ جہاز کے اندر سے آدھے گھنٹے بعد برآمد ہوا اور ہمارے بادشاہ مسکراتے ہوئے اس کا انتظار کرتے رہے۔ مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ! کوئی ایسا ادارہ نہیں جس کے اندر بے ضابطگیاں، بے قاعدگیاں، لوٹ مار، یا الٹ پھیر نہ ہوا ہو۔
چلئے انتظار کیجئے۔ انیس قائم خانی اور کتنی وکٹیں گراتے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات میں ایک نیا سٹیڈیم اور ایک نیا میچ ابھرتا نظر آ رہا ہے!
چھان بورا خریدنے والے صدائیں لگاتے پھر رہے ہیں۔