پاک فضائیہ کا عظیم ہیرو ایم ایم عالم

محمد محمود عالم المعروف ایم ایم عالم 6جولائی 1935ءکو کلکتہ میںپیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ خاندان سمیت پاکستان آگئے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ایم ایم عالم کو بچپن ہی سے ہی پائلٹ بننے کا شوق تھا۔ چنانچہ انہوں نے 1960ءمیں پاک فضائیہ کو جوائن کیا اورپھر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے ترقی کی منازل طے کرتے چلے گئے۔ 1965 کی جنگ میں جب بھارت نے چوروں کی طرح رات کی تاریکی میں حملہ کرکے یہ پروگرام بنایا تھا کہ ان کی فوج ناشتہ لاہور فتح کرکے وہاں کرے گی‘ تو ایم ایم عالم جیسے دھرتی کے دلیر بیٹوں نے اسے ناکام بنایا تھا۔ پاکستان کا رقبے‘آبادی‘ معیشت‘ جنگی طاقت‘ فوجی نفری سمیت کسی میدان میں بھارت سے کوئی تقابل نہیں تھا۔ بھارت تو تقسیم کے وقت سے ہی اس قدر بے خوف تھا کہ اس نے پاکستان کے حصے میں آنے والے بجٹ‘ ایمونیشن اوردیگراملاک پر بھی قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ پاکستان کا حصہ بننے کیلئے تیار کشمیر اورپاکستان سے الحاق کا اعلان کرنے والے حصوں جونا گڑھ‘ مناودر اسٹیٹ پر بھی بالجبر قبضہ کرلیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ساری دنیا بھارت کی حامی جبکہ پاکستان کے وجود کی مخالف تھی۔ ان حالات میں پاکستان کا باقی رہ کر آگے بڑھنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ پھر پاکستان پر بھارت کا جنگ مسلط کرنا اور اس میں منہ کی کھانا بھی تائیدالٰہی ہی کہاجاسکتا ہے۔ اس جنگ میں بھارت کی فضائیہ بھی پاکستان پر ہر لحاظ سے حاوی تھی۔ لیکن ایم ایم عالم کی جانب سے تاریخ مرتب کرتے ہوئے بھارت کے 5ہنٹر طیاروں کو تباہ کرنا کوئی حادثاتی واقعہ نہیں تھا۔ 6ستمبر جنگ کے پہلے ہی روز ایم ایم عالم نے بھارتی فضاﺅں میںداخل ہوکر2بھارتی طیارے تباہ کردیئے تھے۔ بھارت کے میدانی جنگ میں دانت کھٹے ہوئے تو انہوںنے ہمارے سرگودھا ایئربیس کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا کہ جہاں سے اڑان بھر کر ایم ایم عالم نے پہلے روز بھارت کو زک پہنچائی تھی۔ واقعہ کے چشم دید گواہ ریٹائرڈ کمانڈر محمد عارف اقبال کہتے ہیں کہ بھارت کا بڑا ہدف سرگودھا ایئربیس ہی تھا۔ ہم تو تیار تھے کہ کب حکم ملے۔ ہماری نگاہیں مغربی سرحد کی جانب تھیں جبکہ ایم ایم عالم کی نگاہیں مشرقی سرحد کی جانب۔ پھر پتہ چلا کہ بھارتی طیارے پاکستانی حدود میں داخل ہورہے ہیں۔ ایم ایم عالم نے اپنے سیبر 86 طیارے کو لے کر اڑان بھری اوربھارتی طیاروں کو جالیا۔ بھارتی ہنٹر طیارے ہمارے سپر سے کہیں زیادہ جدید اورتیز رفتار تھے لیکن ایم ایم عالم نے انتہائی پھرتی اورمہارت سے 30سیکنڈ میں 4جبکہ بعد میں 5واں طیارہ بھی تباہ کردیا۔ یوں انہوں نے وہ ریکارڈ قائم کیا کہ جسے آج تک دنیا میں کوئی توڑ نہیں سکا۔ اس جنگ میں ایم ا یم عالم نے مزید 4بھارتی طیارے بھی تباہ کئے تھے۔ اس کارنامے پر انہیں 2مرتبہ ستارہ جرات سے نوازا گیا۔ 1979 ءمیں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہ پاک فضائیہ سے چھٹی لے کر افغانستان پہنچ گئے اور اپنی جنگی صلاحیتوں اورمہارتوں سے روز اول سے ہی افغان مجاہدین کو ہر طرح کی رہنمائی فراہم کی جبکہ 1982 میں پاک فضائیہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ افغان جہاد کے میدانوں میں گزارا۔ جس وقت تک روس اورروس کی باقیات مکمل طورپر شکست کھاکرپسپا نہیں ہوگئیں‘ وہ اس جہادی میدان سے جڑے رہے۔ انہیں 1971 میں بھارتی حملے اورپھر اس سے پاکستان کے دولخت ہونے کا بہت زیادہ صدمہ تھا۔ان کا خاندان 1971 ءکے سانحہ کے بعد پاکستان چھوڑ کر مشرقی پاکستان چلا گیا مگر انہوں نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی اورا پنا سب کچھ پاکستان کے نام کردیا۔ ایم ایم عالم کو اس بات کا بہت دکھ رہتا تھا کہ قوم انہیں 6ستمبر کے موقع پر ہی یاد کرتی ہے اوروہ جو حق بات کہناچاہتے ہیں وہ آج کا میڈیا دکھانے کو تیار نہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں اپنی اولادوں کوعربی اورفارسی لازمی پڑھاناچاہیے کیونکہ ہمارا سارا ثقافتی ومذہبی ورثہ عربی اورفارسی زبان میں تحریر کردہ کتب میں ہے۔ وہ 18مارچ 2013کو اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ وفات سے قبل ماہ ستمبر میں انہیں سانس کی تکلیف شروع ہوئی تھی جو بڑھتی چلی گئی اورپھر زندگی انہیں آخری روز تک لے گئی۔ وہ اس دنیا سے دوسرے انسان کی طرح چلے گئے لیکن جو وہ کرگئے وہ انہیں دنیا میں ہمیشہ ان کی پرواز کی طرح اونچا سربلند رکھے گا۔ ان کی وفات پر ایک بھارتی صحافی نے لکھا تھا کہ آج جب ایم ایم عالم اس دنیا سے رخصت ہوا ہے‘ بھارت کے لوگ چین کی نیند سوئے ہوں گے۔ 4سال قبل جب وہ اپنے اللہ سے جاملے تھے تو اس وقت بھی پاکستان میں یوفون موبائل کمپنی کے علاوہ کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ انہیں سلام عقیدت پیش کرتا۔ پاکستان کی محبت میں مرمٹنے اورسب کچھ فنا کرنے والے اس عظیم سپوت کیلئے آخر کسی کے پاس کیوں وقت نہ پہلے تھا نہ آج ہے آخر کیوں؟ کیا قومیں اپنے ہیروز کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہیں؟ انہیں یوں بھلا دیا جاتا ہے؟ یہ سوال اتنا بڑا ہے کہ جواب شاید آسانی سے نہ مل سکے۔ جبکہ اس حقیقت سے ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ جوقومیں اپنے اسلاف کے کارناموں اوراپنی تاریخ کے ہیرو ز کو فراموش کردیتی ہیں ان کا جغرافیہ بھی مختصر ہوجاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن