سوچوں میں فرق

میں سمجھتا ہوں کہ اس دارِ فانی میں وہی انسان کامیاب و کامران زندگی بسر کرتا ہے جس کی سوچ صحیح ہو کیونکہ سوچ کے دو پہلو ہیں یعنی کہ مثبت سوچ اور منفی سوچ‘ ان سوچوں کا آغاز بابا آدم علیہ السلام کی آفرینش کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ جب اللہ عزوجل نے انہیں اپنی دیگر مخلوق سے اشرف گردانا لہٰذا نوری اور ناری سب مخلوق کو بابا آدم کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا تو سوائے ابلیس کے باقی سب نے سجدہ کر دیا مگر ابلیس کی سوچ منفی تھی اور وہ اپنے آپ کو بابا آدم سے افضل سمجھتا تھا کہ وہ ناری ہے اور بابا آدم خاکی تھا۔ بنابریں وہ اللہ کی بارگاہ سے تاقیامت نکال دیا گیا۔ ابلیس کو راندہ¿ درگاہ صرف اس کی منفی سوچ کی وجہ سے ہونا پڑا۔قارئین کرام! کچھ اسی طرح کی سوچیں ہمارے معاشرے میں عام پائی جاتی ہیں جن کا اظہار وہ اپنے اپنے بیانات سے کرتے رہتے ہیں چونکہ سوچ کا تعلق دماغ سے ہے اور ارادے کا تعلق دل سے ہے۔ دل میں اگر کوئی غلط ارادہ پیدا ہو جائے تو دماغ مثبت سوچ سے اس ارادے کو بدل دیتا ہے اگر کوئی ارادے کے مطابق سوچ بنا لے تو انجام بھی اسی کے مطابق ہوتا ہے خواہ مفید ہو یا ضرر رسان۔گزشتہ روز اخبار میں متضاد سوچ کے بیانات پڑھنے کے بعد میں پاکستانی سوچ کا حامل ہونے کی بنا پر تجزیہ کرنے میں معاشرتی بھلائی کا پہلو اجاگر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں جو کہ درج ذیل ہے۔پہلا بیان پاکستان فنکشنل مسلم لیگ کے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری اشرف قاضی کا پڑھا جس میں انہوں نے کہاہے کہ ملک کو زبانوں اور ذاتوں کی بنا پر تقسیم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے مگر عام عوام ان کی جانب توجہ نہیں دیتے لیکن یہ تنظیمیں ان پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں جبکہ پاکستان برصغیر کے تمام مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر ہے۔ دوسرا بیان جناب سید یوسف رضا گیلانی کا ہے کہ سرائیکی عوام آئندہ الیکشن میں سپورٹ کریں۔ الگ صوبہ نہ دیا تو مستعفی ہو جا¶نگا۔ان درج بالا بیانات میں اشرف قاضی کا بیان تو پاکستانیت سے متعلق ہے لہٰذا قومی سوچ پر مبنی ہے۔ جہاں تک سید یوسف رضا کا اپنے بیان میں صرف سرائیکی عوام کو ہی سپورٹ کرنے کو کہنا ہے اس پر ان کی محدود سوچ ہو جانے پر حیرانی ضرور ہوئی ہے کیونکہ وہ پاکستان کی مرکزی سطح کے لیڈر ہیں نیز وزیراعظم پاکستان رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے سپیکر رہے ہیں۔ مرکز میں وزیر بھی رہے ہیں علاوہ ازیں ملتان ضلع کونسل کے چیئرمین رہے ۔ ان کے خانوادہ نے تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا ہے۔ مزید یہ کہ ان کے خانوادہ کی ملتان ضلع اور ڈویژن کے لئے تعلیمی خدمات بے مثال ہیں جیسے کہ انہوں نے ملتان شہر میں اسلامیہ ہائی سکولز اور اسلامیہ کالج قائم کر کے بے شمار نوجوانوں کو تعلیم سے روشناس کیا اور وہ زیور تعلیم سے بہرہ ور ہوئے اور وہاں اساتذہ کرام کو تدریسی فرائض ادا کرنے کا موقع یکسر ہونے کے ساتھ روزگار بھی ملا۔مجھے یاد ہے کہ سن ساٹھ کی دہائی میں ملتان شہر میں صرف دو خاندانوں کی سیاست تھی یعنی گیلانی اور قریشی خاندان۔ مگر اب وقت بدلنے کے ساتھ حالات نے ایسے پلٹا کھایا ہے کہ ملتان شہر میں کئی اور خاندان میدان سیاست میں شامل ہو گئے ہیں مثلاً بوسن‘ ڈوگر‘ رانا برادری‘ شیخ برادری اور آرائیں‘ گجر‘ جاٹ چودھری وغیرہ یہی صورت حال سارے جنوبی پنجاب کی ہے جس میں بہاولپور ڈویژن اور ملتان ڈویژن کے علاوہ ڈیرہ غازیخان ڈویژن میں بھی پہلے سے حالات بہت مختلف ہو گئے ہیں تو ایسی صورت حال میں زبان کے لہجے پر سوسائٹی میں تفریق پیدا نہیں ہونے دینی چاہیے۔ ہم جیسے بوڑھے تو زندگی کا بہت سا سفر طے کر چکے ہیں مگر ہماری کوشش اور تمنا یہی ہونی چاہیے کہ آئندہ نسلیں اتفاق و اتحاد سے زندگی بسر کریں۔پنجاب میں کون سی جگہ ہے جہاں سرائیکی لہجہ والے بسلسلہ روزگار نہیں رہ رہے اسی طرح دیگر لہجوں والے بھی سارے پنجاب میں آباد ہیں لہٰذا اگر صوبہ بننا ضروری ہوا تو باہمی اتفاق سے انتظامی طور پر جنوبی پنجاب ہی بہتر ہے تاکہ آپس میں نفرت کا پہلو اجاگر نہ ہو۔ پاکستان میں اگر زبان کی بنیاد پر صوبے بننے لگے تو پھر صوبوں کی ایسی کھچڑی پکے گی کہ سوائے انتظار اور نفرتوں کے کحھ حاصل نہیں ہو گا۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن