میں کئی برس بعد اسلام آباد گیا تو ضروری سمجھا کہ پی آئی ڈی کے دفتر سے ملکی معاملات کو سمجھنے کی کوشش کروں۔ راﺅ تحسین علی خان بے حد مصروف تھے،سابق پی آئی او سلیم بیگ ا، بیرونی پبلسٹی کے سربراہ شفقت جلیل اور ڈپٹی ڈائریکٹرامین جان مروت بھی وہاں ملے، سب سے زیادہ خوشی مجھے سوشل میڈیا کے نوجوان انچارج ضیغم عباس اور ان کی ٹیم سے مل کر ہوئی، وقت آن پہنچا ہے کہ حکومتی سطح پر سوشل میڈیا کی افادیت کا ادراک کیا جائے اوور نجی شعبے میں اس سیکٹر کو منظم کرنے کے لئے کوئی حقیقت پسندانہ ،قابل عمل، متحرک اور جاندار پالیسی مرتب کی جائے۔سوشل میڈیا ایک انقلاب کا نام ہے، یہ انقلاب کا بھی باپ ہے ، کوئی سونامی اس کی طغیانی کے سامنے کیا ٹھہر سکے گا۔دنیا کی حکومتیں اس کی طاقت کے سامنے لرزاں دکھائی دیتی ہیں، پاکستان میں ا س نے نئے نئے دانت نکالے ہیں۔ ابھی یہ دودھ کے دانت ہے،ا س لئے حکومت کوایک حد سے آگے پریشانی لاحق نہیں مگر وہ دن آئے گا جب کیبل کا گھوڑا لنگڑا لولا ہو کر رہ جائے گا، آج تو حکومت نے اس گھوڑے کی باگیں پیمرا کے ذریعے کسی ہوئی ہیں مگر جب ہر شہری کے ہاتھ میں،موبائل فون ہو گا اور ویب ٹی وی کا زمانہ آئے گا تو پیمرا ایک کیچوے کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ویب ٹی وی، ٹوئٹر، فیس بک، ایم ایس این، گوگل،ڈیلی موشن جیسے پلیٹ فارموں سے اطلاعات اور افواہوں کی ٹرینیں بگٹٹ گزر رہی ہوں گی،اس وقت سے پہلے حکومت اور سول سوسائٹی کو ہوش کے ناخن لینے پڑیں گے اورا س پھنکارتے ہوئے دور کے سامنے اپنے قدم جمانے کی تیاری کر لینا ہو گی۔
پی آئی او کے دفتر کو جدید خطوط پر مسلح کیا جاچکا ہے، دیوار پر لاتعداد ٹی وی اسکرینیں نصب ہیں۔ راﺅ تحسین علی خان کی نظریں ان سکرینوں پر جمی ہوئی تھیں، وہ دیکھ رہے تھے کہ وزیر اعظم کا طیارہ بلوچستان میں لینڈ کر چکا ہے،کچھ دیر کے بعد وزیر اعظم کی تقریر براہ راست نشرہونے لگی، میرے کانوں میں ان کی آواز ابھی تک گونج رہی ہے کہ نئے پاکستان کا سورج بلوچستان سے طلوع ہو گا۔وزیر اعظم مستقبل میں دور تک دیکھتے ہیں، ان کے چہرے سے ان کی سوچ کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہو پاتا لیکن یقین جانئے کہ میں نے جب بتیس برس قبل ان سے پہلی ملاقات کی تو میرے لئے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ یہ نوجوان ایک ترقی پسند دماغ سے لیس ہے، وہ اندر ہی اندر منصوبے بناتا ہے اور مستقبل کے خاکوں میں رنگ بھرنے میںمشغول رہتا ہے۔
آپ کہہ لیجئے کہ جب سے شاہراہ ریشم بنی، سی پیک تب ہی وجود میں آگیا تھا مگر یہ اعزاز نواز شریف کو ملا کہ انہوں نے اس ریشمی شاہراہ کو فولادی رشتوںمیں تبدیل کر دیا اور اسے دنیا بھر سے مربوط کرنے کے لئے گوادر کی تیز رفتار ترقی کو یقینی بنایا، شاہراہ ریشم پر صدیوں سے قافلے چلتے رہے ہوں گے ، کون جانے تجارتی قافلے کب تک پیدل چلتے رہے، پاﺅں سے ا ٓبلے بھی ضرور پھوٹتے ہوں گے۔پھراونٹوں کو استعمال کیا گیا، گدھوں کو ، گھوڑوں کو یا خچروں کو مگر سفرا ٓگے کی طرف رواں دواں رہا، اب شاہراہ ریشم ایک روشن اور تابناک مستقبل کا نام ہے، نام ہی نہیں، ضمانت بھی ہے۔
بلوچستان ایک پس ماندہ خطہ تھا، شورش زدہ، بغاوتوں کے کینسر سے مرجھایا ہوا، مگر اب اس کے ساحلوں سے ایک نیا سورج طلوع ہو رہا ہے، یہ سورج صرف اس صوبے ہی کو نہیں، پاکستان ہی کو نہیں ، اس پورے خطے کو منور کرے گا، غربت اور پس ماندگی کے اندھیرے مٹا ڈالے گا۔
ایک طرف گوادرا ور دوسرے سرے پر شنگھائی،کاشغرا ور سنکیانگ، یہ آنے والے دور کے لئے مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔
وزیر اعظم نوازشریف کی قیادت کاا عجاز یہ ہے کہ اس نے وفاق کو مضبوط اور مستحکم کر دیا ہے،کوئی ان سے سیاسی اختلاف کی جرات نہیں کر سکتا، بس الزام بازی کا شوق پورا کیا جا سکتا ہے مگر نواز شریف نے ثابت کیا ہے کہ و ہ اس بلیم گیم کی دلدل میں دھنسنے کے لئے تیار نہیں، اسی لئے ان کے نقاد تاریخ کے ا وراق میں اپنا ذکر شامل کروانے سے محروم رہ گئے اور نواز شریف نے ایک معجزہ کر دکھایا ، شب و روز سی پیک پر سوچ بچار کی، اس کو بروئے عمل لانے کی تدابیر پر توجہ صرف کی اور چین جیسے آزمودہ دوست اور مخلص ترین ہمسائے سے تعلقات میں قربت پیدا کی۔کہاں یہ وقت تھا کہ چینی صدر اورمچی کے ایک ہوٹل میںمعمولی پٹاخہ چلنے پر یہ اعلان کر رہا تھا کہ خنجراب کی چوٹیوں پر فلک بوس کانکریٹ کی دیوار کھڑی کر دی جائے تاکہ کوئی دہشت گرد اس کی حدود میں داخل نہ ہو سکے اور کہاں اب یہ کہ چینی تجارتی ٹرکوں کے قافلے بے فکر ہو کر شاہراہ ریشم پر دوڑ رہے ہیں ، ایک طویل سفر طے کر کے گوادر پہنچتے ہیں جہاںسمندری جہاز مستعد کھڑے ہیں اور روئے زمین پر بکھرے ہوئے ملکوں کی طرف رواں دواں ہو جاتے ہیں۔ چین کے صدر کو اب کوئی تشویش لاحق نہیں ، ا سلئے کہ پاکستان نے تجارتی ٹرکوں کی حفاظت کے لئے فوج کا ایک خصوصی ڈویژن کھڑا کرنے کی حامی بھری ہے۔ضروت پڑنے پر ایک اور ڈویژن بھرتی کر لیا جائے گا۔
آج سی پیک صرف ایک تجارتی سڑک کا نام نہیں، بلکہ خوشحالی کے سفر کی نوید ہے۔سی پیک کے ذریعے پاکستان کے تمام صوبوں کی یکساں ترقی کا رستہ کھلے گا، نئی شاہراہوں کا جال بچھے گا اور قدم قدم پر صنعتی زون قائم کئے جائیں گے، جن کی وجہ سے پاکستان کے عوام نئے سے نیا روز گار حاصل کر سکیں گے۔ویسے پاکستانی اور کچھ نہ کریں تو محض راہداری وصول کر کے ہی عیاشی کی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔مگر یاد رکھئے پاکستان ایک ترقی پذیر معیشی منصوبہ بندی کے تحت آگے بڑھ رہا ہے۔ملک میں بجلی کی کمی کو دور کرنے کے لئے درجنوں منصوبے پروان چڑھ رہے ہیں، اگلے سال مئی تک یہ مکمل ہو جائیں گے ا ور ضرورت سے زیادہ بجلی فراہم کر سکیں گے جس سے گھریلو، کاروباری اور صنعتی زندگی کی موجودہ مشکلات ختم ہو جائیں گی اور ایک نئے سرگرم دور کا آغاز ہو گا۔یہ دور نواز شریف کی محنتوں کا ثمر ہے۔
پی آئی ڈی کے سربراہ راﺅ تحسین علی خان کے کمرے کی دیوار پر نصب ٹی وی اسکرینیں چغلی کھا رہی تھیں کہ جو سورج پہلے بلوچستان کے ساحلوں پر پہنچ کر بحیرہ عرب میں غروب ہو جاتا تھا، اب وہاں سے نئی آب و تاب سے ایک نیا سورج طلوع ہونے کو ہے، یہ نئے پاکستان کو عالمی افق پر روشن تر کر دے گا۔