سی پیک کو یو این کی حمایت خوش آئند، بھارتی سازشوں سے بہرحال خبردار رہنا ہو گا

پاک چین اقتصادی راہداری کو اقوام متحدہ کی حمایت بھی حاصل ہوگئی۔ سلامتی کونسل میں سی پیک کی حمایت میں قرارداد منظور کر لی گئی۔ قرارداد میں ایشیائی ملکوں پر علاقائی اقتصادی تعاون مضبوط بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ سفارتکاروں کے مطابق اقوام متحدہ کی طرف سے سی پیک کی حمایت سے کشمیر پر بھارتی دعویٰ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ چینی نیوز ایجنسی سنہوا کے مطابق سکیورٹی کونسل کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ دوسرے ممالک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو مضبوط بنانے کیلئے تعاون کریں جس میں تجارت اور آمدورفت کیلئے علاقائی رابطوں کی سہولت فراہم کی جائے۔ معاشی تعاون کیلئے شاہراہ ریشم کی اقتصادی بیلٹ اور پاک چین اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں کو فروغ دیا جائے۔ قرارداد میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت کے گیس پائپ لائن منصوبے ’تاپی‘ سینٹرل ایشیائ، ساؤتھ ایشیاء الیکٹر سٹی ٹرانسمشن اینڈ ٹریڈ پراجیکٹ چاہ بہار، ون بیلٹ ون روڈ منصوبوں کو فروغ دینے اور حمایت کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔ بھارت نے سکیورٹی کونسل میں قرارداد پاس ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ترقی و خوشحالی کے حوالے سے چین صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا کے اکثر ممالک کیلئے ایک مثال اور رول ماڈل ہے۔ آج پاکستان اور چین کی معیشت کے مابین کوئی مقابلہ اور موزانہ نہیں ہے تاہم وہی چین جس کی معیشت آج آسمان کو چھو رہی ہے، ستر کی دہائی تک پاکستان اس کی مالی مدد کرتا تھا۔ 1982ء میں پاکستان کی فی کس آمدنی چین سے زیادہ تھی، چینی حکام اس کا برملا اعتراف کرتے ہیں مگر آج پاکستان اور چین کی ترقی، خوشحالی اور معیشت کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے مگر چین نے اس دور کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جب پاکستان اس کی مدد کرتا تھا۔ آج اگر وہ دنیا کی معیشتوں میں سرفہرست ہے تو وہ پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
چینی دانشور پروفیسر تنگ منگ شنگ (ڈائریکٹر چین پاکستان اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ، بیجنگ یونیورسٹی)کہتے ہیں آج سے چالیس سال قبل لوگ ایک سائیکل، گھڑی اور سلائی مشین کیلئے جدوجہد کرتے تھے اور جس کے گھر میں یہ تین چیزیں ہوتی تھیں اسے امیر تصور کیا جاتا تھا۔بیس سال کے بعد لوگ فریج، ٹی وی وغیرہ لینا چاہتے تھے، مزید 10 سال بعد مکان، گاڑی وغیرہ کیلئے سوچنے لگے۔ چالیس سال میں لوگوں کا معیار زندگی تین مراحل سے گزرا۔ میں سمجھتا ہوں ہمارا یہی راستہ پاکستان کے لوگوں کا راستہ ہوگا اور آپ بھی خوشحال ہوجائیں گے لیکن سی پیک کے لیے ملکر محنت کرنا ہوگی۔
سی پیک پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا منصوبہ ہے جس سے نہ صرف خطے اور پڑوس کے ممالک استفادہ کر سکتے ہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور یورپی ممالک کیلئے بھی شراکت داری کے راستے کھلے ہیں۔ پاکستان نے بہت سے ممالک کو سی پیک منصوبے میں شامل ہونے کی دعوت دی اور کئی ممالک نے خود اس منصوبے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ گرم پانیوں تک کسی دور میں سوویت یونین طاقت کے زور پر پہنچنا چاہتا تھا پاکستان نے اس کے منصوبے خاک میں ملا دیئے، دنیا کی سپر پاور گرم پانیوں تک پہنچنے کی جستجو میں بکھر کر رہ گئی آج روس پھر دنیا کی دوسری پاور بن رہا ہے۔ اب بھی اس کی گرم پانیوں تک پہنچنے کی خواہش ہے مگر اب اس نے مہذبانہ اور سفارتی طریقہ اختیار کیا ہے جسے پاکستان نے خوش آمدید کہا، اسے گوادر پورٹ تک رسائی دی جا رہی ہے۔ سی پیک میں اس کی شراکت کی توثیق کی جا رہی ہے۔
46 ارب ڈالر سے تین سال قبل شروع ہونیوالا سی پیک منصوبہ تیزی سے تکمیل کی طرف گامزن ہے جس سے لاکھوں ملازمتوں کے دروازے کھلیں گے۔ ہزاروں کلومیٹر سڑکیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ توانائی کے منصوبے مکمل ہو رہے ہیں، آج بجلی کی لوڈشیڈنگ میں واضح کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ ملازمتوں کے ساتھ ساتھ ذرائع نقل و حمل سے روزگار کے مواقع پیدا ہو رہے اور بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کی ترقی کا آغاز ہو چکا ہے جس کی دشمنوں بالخصوص بھارت کو بے حد تکلیف ہے۔ سی پیک منصوبے کے اعلان اور گوادر پورٹ کے روبہ عمل آنے کی خبروں کے بعد سے بھارت انگاروں پر لوٹ رہا ہے۔ اس نے دونوں منصوبوں کے خلاف سازشیں کیں، ان کو متنازعہ بنانے کیلئے عیاری و مکاری سے کام لیتے ہوئے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا، سازشوں کے جال بنے، اپنے ایجنٹ متحرک کئے۔ بدنام زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ میں خصوصی ڈیسک قائم کر کے ان منصوبوں کے خلاف پراپیگنڈے اور پاکستان سے ایجنٹ خریدنے کیلئے 30 کروڑ کی رقم مختص کی، شروع میں ان ایجنٹوں نے تحفظات کے نام پر ایک کہرام بپا کر دیا تاہم حکومت نے ان کو بھاگنے نہیں دیا، ان کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ صوبوں کے جائز خدشات کو سنا گیا اور دور کرنے کیلئے تمام وزرائے اعلیٰ کو چین لے جایا گیا۔
بھارت نے چین پر سی پیک منصوبے کے خاتمے پر زور دیا۔ مودی خود چین گئے۔ ان کی کابینہ کے ارکان اور سیکرٹری اب تک چین جا رہے اور چین کو رام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ آزاد کشمیر متنازعہ علاقہ ہے، اس سے راہداری نہ گزاری جائے چین نے یہ اعتراض مسترد کرتے ہوئے منصوبہ جاری رکھنے کا دو ٹوک اعلان کیا۔
اب سلامتی کونسل سے پاک چین راہداری کی حمایت میں قرار داد اس منصوبے کی افادیت او رشیڈول کے مطابق تکمیل پر مہر تصدیق کی حیثیت رکھتی ہے مگر بھارت اس قرار داد کے باوجود ان منصوبوں کی مخالفت ترک کرنے پر آمادہ ہو گا نہ اس کے خلاف سازشوں سے باز آئے گا۔ اس نے اقوام متحدہ کی کشمیر پر قرار دادوں کو تسلیم کیا مگر ان پر عمل کیلئے تیار نہیں۔ وہ مسئلہ کشمیر خود اقوام متحدہ میں لے کے گیا، جس نے استصواب کی تجویز دی، جس سے بھارت مکر گیا اور متنازعہ حصے کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے لگا۔
آج صورت حال یہ ہے کہ وہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی اپنا حصہ قرار دیتا ہے حالیہ دنوں ان علاقوں میں بھارتی پارلیمنٹ کیلئے نشستیں مختص کرنے کی تجویز بھی سامنے لائی گئی۔ یہ سب بھارت کی شرارت اور شیطانی ذہنیت کا شاخسانہ ہے۔ ایل او سی پر اس کی اشتعال انگیزی جاری ہے۔ گزشتہ روز بھی ایک 60 سالہ خاتون کو سفاک بھارتی فوجیوں نے شہید کر دیا۔ وہ افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشتگردی کرا رہا ہے مگر چور مچائے شور کے مترادف پاکستان پر مداخلت کے الزام لگا کر عالمی رائے کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے انڈیا ٹوڈے کے مذاکرے میں پاکستان پر لگائے گئے بھارتی الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت پہلے کشمیر پر بات کرے۔ بلاشبہ الزام تراشی بھارت کی پرانی عادت ہے۔ مگر یہ کہہ دینے سے بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے نہیں آ سکتا۔ پاکستان کو بھارت کے کالے کرتوت، کشمیریوں پر مظالم، پاکستان میں دہشتگردی اور مداخلت دنیا پر آشکار کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت جس طرح پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرتا ہے اس کا توڑ بھارت کے مقابلے میں زیادہ زور دار طریقے سے کرنے کیلئے سفارتکاری کو مزید متحرک اور فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ خطے کیلئے گیم چینجر اور پاکستان کے مفاد کے اہم ترین اور بہترین منصوبے سی پیک کو مقررہ مدت میں کسی بھی صورت پایہ تکمیل تک پہنچانا ہر پاکستانی کا مشن ہونا چاہئیے جس میں ہم بھارت کی سازشوں کے باوجود ان شاء اللہ ضرور کامیاب ہونگے۔

ای پیپر دی نیشن