شرجیل میمن وطن واپسی پر ائرپورٹ سے گرفتار‘ اڑھائی گھنٹے بعد رہا۔

پی پی پی سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن کو اسلام آباد ائرپورٹ پر گرفتار کرنے والوں نے اڑھائی گھنٹے بعد رہا کر دیا۔ اب کوئی بھی ان کی اور فاروق ستار کی گرفتاری اور رہائی میں مماثلت ڈھونڈتا پھرے اور اسے نوراکشتی قرار دیتا پھرے تو یہ اس کی مرضی ہے۔ ویسے بھی یہ تو ایک سلسلہ سا بن گیا ہے۔ آؤ ضمانت کراؤ باہر ہو جاؤ۔ میمن جی اتنے بھی بھولے تو نہیں ہوں گے کہ انہیں خبر نہیں ہو گی کہ پاکستان واپس آتے ہی انہیں اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات میں پکڑا جا سکتا ہے۔ پہلے بھی کئی بار وہ ٹکٹیں کٹواتے رہے ہیں۔ مگر وطن واپسی کی ہمت نہیں ہوتی انہیں۔ اب اندرون خانہ معاملہ مک مکا کے دو برس بعد انہوں نے رخت سفر باندھا ہو گا۔ آخر ایان علی پے در پے پیشیوں کے بعد جب اڑن چھو ہو سکتی ہے تو شرجیل جی کے پاؤں میں کون سی من من کی بیڑیاں پڑی ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کے لئے یہ اربوں روپے کی کرپشن کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔ اتنے بڑے لوگ اربوں کی نہیں تو کیا ہزاروں کی کرپشن کرتے پھریں گے۔ اب یہ بے چارے سکیورٹی والے جنہوں نے شرجیل جی کو ائرپورٹ پر بے بس پرندے کی طرح دبوچ لیا تھا۔ کیا سوچتے ہوں گے۔ جب رہا ہی کرنا تھا تو گرفتاری کا حکم کیوں دیا گیا۔ یہ ڈرامہ خوامخواہ کیوں رچایا گیا۔ یہ بھی کہیں فاروق ستار کی طرح شرجیل میمن کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کی سازش تو نہیں…
٭…٭…٭…٭…٭
درگاہ نظام الدین کے سجادہ نشین کراچی پہنچ گئے۔
آصف نظامی اور نظام نظامی دہلی کے خواجۂ خواجگان حضرت نظام الدین اولیا کے سجادہ نشینوں میں سے ہیں۔ یہ دونوں حضرات پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔ ہمارے بزرگوں کی اولادوں میں رسم ہے کہ وہ سالانہ اپنے دور دراز کے مریدوں سے ملنے چلے آتے ہیں۔ اس طرح ملاقات بھی رہتی ہے روحانی تربیت بھی ہوتی ہے اور یہ سجادہ نشین نذر و نیاز بھی سمیٹتے ہیں۔ یوں دین و دنیا کا کاروبار احسن طریقے سے چلتا ہے۔ تو صاحبو! کیا عجب یہ دونوں سجادہ نشین بھی اپنے اپنے مقررہ علاقوں میں مریدان باصفا سے ملنے اور نذرانے اکٹھے کرنے نکلے ہوں۔ ایسے میں نجانے بھارت والوں کو اچانک کہاں سے مخبری ہوئی کہ یہ دونوں غائب ہو گئے ہیں۔ ایک کراچی سے دوسرا لاہور سے۔ خبر چلتے ہی بھارتی میڈیا نے جو ویسے تو ہزاروں ہندوستانی مسلم مارے جائیں ایک سطری خبر نشر کر کے سو جاتا ہے۔ ان کی گمشدگی پر آسمان سر پر اٹھا لیا کہ سجادہ نشیں اغواء ہو گئے۔ حکومت پاکستان کے تو ویسے ہی ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ وہ بھی پریشان ہو گئی۔ بھارتی میڈیا دور کی کوڑی لایا کہ انہیں ایجنسیوں نے الطاف حسین سے رابطے پر اٹھا لیا ہے۔ سب حیران رہ گئے۔ کہاں یہ سادھو کہاں وہ شیطان۔ بہرحال اب دونوں سجادہ نشینوں نے کراچی میں اپنی رونمائی کراتے ہوئے بتایا کہ وہ مریدوں سے ملنے اندرون سندھ چلے گئے تھے جہاں سے موبائل رابطہ ممکن نہیں تھا اسلئے وہ بروقت اپنے بارے میں اطلاع نہیں دے سکے۔ اب وہ کل بھارت واپس جا رہے ہیں۔ لگتا ہے انہیں تمام نذرانے اور فتوحات یہاں ہی چھوڑ کر جانا ہو گا کہیں اب بھارت میں ایجنسیاں ان کو یہ کہتے ہوئے نہ پکڑ لیں کہ کہاں سے آئے ہیں یہ نوٹ کس نے دیئے ہیں اتنے سارے نوٹ۔
٭…٭…٭…٭…٭
یورپ میں مقیم تارکین وطن تین نہیں پانچ بچے پیدا کریں: ترک صدر کا مشورہ
یہ تارکین وطن یورپی ممالک میں روزی روٹی کمانے کے چکروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ بھلا بچوں کی فوج کہاں سنبھالتے پھریں گے۔ اکثر یورپی ممالک تارکین وطن کی یلغار سے پہلے ہی پریشان ہیں اور اب انہیں نکالنے کی منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں۔ ترکی کے صدر کا بیان جلتی پر تیل ہو گا یورپ میں پہلے ہی اسلام دشمنی کی لہر چل رہی ہے جو اب کہیں یہ خاندانی منصوبہ بندی کی لہر میں نہ بدل جائے ایک یا دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے تارکین وطن کو یورپ والے واپس نکالنے لگے تو کیا ہو گا۔ کیا ترکی سنبھال پائے گا اور ان ہزاروں تارکین اور ان کے لاکھوں بچوں کو۔ غیر ممالک میں رہنے والے تارکین وطن سب کو معلوم ہے کس طرح گزارہ کرتے ہیں۔ سب ہی قسمت کے دھنی نہیں ہوتے کہ دولت میں کھیلیں اکثر اوقات ایک خاندان ڈربے نما ایک یا دو کمروں میں گزارہ کرتے ہیں۔ اب اگر وہ بچوں کی لائن لگانے لگیں تو رہیں گے کہاں۔ غیر قانونی تارکین تو اس سے زیادہ بدتر حالات میں چوری چھپے زندگی بسر کرتے ہیں۔ آج کل ترکی کے صدر اور یورپی یونین کے درمیان گرما گرمی چل رہی ہے اس میں تارکین وطن کو گھسیٹنا کسی صورت مناسب نہیں۔ اگر وہ بے چارے وہاں سے بے دخل ہو گئے تو جائیں گے کہاں اسلامی ممالک میں تو پہلے ہی انسانی آبادی میں کمی کیلئے خانہ جنگی کے منصوبوں پر عمل ہو رہا ہے۔ وہ انہیں کہاں پناہ دیں گے۔
٭…٭…٭…٭…٭
آصف علی زرداری لاہور پہنچ گئے۔ اہم شخصیات کا پی پی پی میں شمولیت کا امکان
ابھی بلاول زرداری کے دورہ پنجاب و لاہور کی گرد بیٹھی نہیں تھی کہ پی پی کے اصلی تے وڈھے چیئرمین لاہور آ پہنچے ہیں۔ وہ بھی اس شان سے کہ ہوائی اڈے سے انہیں سیدھا ہیلی کاپٹر کے ذریعے بحریہ ٹاؤن بلاول ہاؤس پہنچایا گیا۔ حیرت کی بات ہے جس زمین پر حکومت حاصل کرنے کے لئے یہ لوگ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں طرح طرح کے پاپڑ بیلتے ہیں۔ اسی زمین پر سفر کرنے سے یہ ڈرتے ہیں۔ حالانکہ ہر انسان کو اترنا اسی زمین میں ہوتا ہے۔ شاید ہمارے سیاستدان ڈرتے ہیں کہ اگر وہ عوام کے درمیان سے گزرے تو کہیں وہ انہیں پہچان کر گو گو نہ کرنے لگیں۔ وہ ایسے کام ہی نہ کریں تو ڈر کیسا۔ یہی عوام ان کی راہ میں پلکیں بچھاتے نظر آئیں گے۔ اب بقول ترجمان بلاول ہاؤس زرداری صاحب سے جنوبی پنجاب کے کئی اہم سیاستدان ملاقات کریں گے اور پی پی پی میں شمولیت کا اعلان کریں گے۔ دیکھنا ہے اب یہ بڑے بڑے سیاستدان کون ہیں کیونکہ اکثر تو واصل مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ہو چکے اور پھر انہوں نے بلاول جی کے سامنے پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیوں نہیں کیا۔ کیا وہ چیئرمین نہیں تھے یا یہ لوگ اصلی تے وڈھے چیئرمین کے انتظار میں تھے جو اب پنجاب آئے ہیں…
٭٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن