پاکستان : امن کے راستے پر۔

دہشتگردی کیخلاف عالمی جنگ میں پاکستان نے اپنی سرزمین پر جو جانی ومالی نقصان برداشت کیاہے وہ بہت زیادہ ہے۔اعداد و شمار کے مطابق 2017تک پاکستان نے بالواسطہ اور بلا واسطہ کم از کم123بلین ڈالرز کا مالی خسارہ برداشت کیا جبکہ2004سے2013تک کم و بیش80,000ہزارپاکستانی شہریوں کی قیمتی جانیںاسکی لپیٹ میں آئیں جس میں 48,504 عام شہری تھے۔ ان ہوشرُبا اعداد و شمار کے باوجود پچھلے کچھ سالوںکے دوران پاکستان میں امن و امان کی صورتِ حال زیادہ بہتر نہیں ہو سکی۔افغانستان میں دہشتگردی کیخلاف جنگ کے باعث پاکستان کو اپنی سرزمین پر اسکے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ افغانستان میں ملّا عمر کی حکومت ختم ہونے کے بعد افغان پشتون طالبان نے پاکستان کے پشتونوں کے درمیان پناہ لے لی۔پاکستان کی مرکزی حکومت نے ان عسکریت پسندوں کیساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جو کامیاب نہ ہوسکا۔پاکستانی افواج اور عام شہریوں کیخلاف طالبان کی دہشتگردی کی کارروائیوںنے انکے بارے میں پاکستان کی عسکری وسیاسی قیادت کی سوچ تبدیل کرتے ہوئے طالبان کیلئے غیرلچکدار بنا دیا۔
15جون 2014 کو دہشتگردی کیخلاف فیصلہ کن کارروائی "آپریشن ضربِ عضب" کا آغاز کیا گیا جس کا مقصدشمالی وزیرستان پر دوبارہ اپنی عملداری اور کنٹرول حاصل کرنا تھا جو پاکستان اور افغانستان کا سرحدی علاقہ تھا اور جہاں جہادی طالبان کا قبضہ تھا۔ آپریشن ضربِ عضب بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اس آپریشن کے ذریعے اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ پاکستانی ریاست میں شامل تمام علاقوں کو ریاستی عملداری میں لایا جائے۔ دراصل یہی وہ نصب العین ہے جس کے حصول کیلئے پاکستانی افواج 2014میں افْغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعدکمر بستہ ہو گئیں اوراس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ا سے جلد از جلد حاصل کرناچاہتی ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں طالبان کا اپنا اثر و رسوخ ابھی بھی قائم تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس آپریشن ضربِ عضب نے عام شہریوں کے پاک افواج پر اعتماد کو بحال کیا اور انہیں یہ یقین دلایا کہ انکے ادارے اورا فواج اپنے ان دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جنہوںنے پاکستانی علاقوں میں اپنا قانون نافذ کررکھا تھا۔ 22فروری 2017کو "آپریشن ردّالفساد" کاآغاز ہوا جو آپریشن ضربِ عضب ہی کا منطقی تسلسل تھا۔
پاکستان کی انسدادِ دہشتگردی کی کوششوں اور کارروائیوں کے باعث کمزور ہوجانے اور شام کے جنگی میدان میں دلچسپی کے باعث یوں لگتا ہے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران القاعدہ پاکستان میں آنے کیلئے دوبارہ سرگرم ہو گئی ہے۔ 11 جون 2017میں ایک نیا گروہ نمودار ہوا جس نے سماجی نیٹ ورکس پر عالمی انتہاء پسند رہنمائوں کے نظریے اورفلسفے کا پرچار کیا ۔
خطے میں امن و امان کی بحالی کے سلسلے میں سب سے مشکل کام پاک۔افغان سرحد (ڈیورنڈ لائن)جو 2540کلومیٹرلمبی ہے کو محفوظ بنانا ہے۔پاکستان کے مطابق افغانستان ان عسکریت پسندوں کیلئے محفوظ ٹھکانوں کا کام کرتا ہے جو آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے بچ گئے ہیں اور انہوں نے وہاں پناہ اختیار کر لی ہے۔یہ بات تو درست ہے کہ افغانستان کی سرحدسے پاکستانی افواج پر آج بھی حملے کئے جارہے ہیں اورفوجیوں کو شہید کیا جارہا ہے۔کئی دیگر ذرائع اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستانی طالبان کیساتھ رابطے میں ہیں۔ یہ حقیقت کہ دونوں ریاستیں غیر ریاستی عناصر کیساتھ بھی رابطے میں ہیں نئی بات نہیں اور یہ ہمسایہ ممالک کیلئے مسلسل خطرہ بھی ہے۔ درحقیقت کابل نے جہاں پشتون اکثریت میں ہیں، افغان حکومت اور برطانوی راج کے دوران اپنی سرحدوں کا تعین کرنے سے ہمیشہ انکار کیا جس نے پشتونوں کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ افغان پشتونوں کی اس خواہش کے باعث کہ افغان حکومت کے تحت پشتونوں کو ایک بار پھر متحد کیا جائے، پاکستانی علاقے کے 60فیصد حصے پر اپنا دعویٰ رکھتے ہیں۔افغان حکومت کی طرف سے ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان مستقل سرحد کے طور پر تسلیم نہ کرنے کو پاکستانی حکومت ایک مستقل خطرہ سمجھتی ہے۔ اسلئے دورِ حاضر میں دونوں ممالک کے درمیان پائے جانیوالے اعتمادکے فقدان نے سلامتی کے معاملات میں تعاون کوایک نہایت کٹھن کام بنا دیا ہے۔ بہر حال پاکستان کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر حفاظتی باڑھ کی تعمیر کے ٹھوس اور تعمیری اقدام ہے جسکی مدد سے آمد و رفت کی نگرانی میں آسانی ہو سکتی ہے۔ تاہم اس باڑ ھ کی تعمیر میں کابل اور واشنگٹن کی طرف سے مخالفت کے ساتھ ساتھ کئی اور مشکلات پیش آئیں گی لیکن پاکستان کی جانب سے اس بات کا جواب یہ ہے کہ پاکستان کیلئے سلامتی کا مسئلہ کابل اور واشنگٹن کی طرف سے کی جانیوالی تنقید سے زیادہ اہم ہے۔لہٰذا اگر ہم پاکستان میں سلامتی اور امن و امان کی صورتِ حال میں آنیوالی بہتری کو مدنظر رکھیں تو یہ ایک قابلِ تعریف قدم ہے۔بہر حال پاکستان میں حقیقی امن و امان کی بحالی پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو خوشگوار رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...