تراجم کا عمل ایک زبان کے تحریری متن کو دوسری زبان کے تحریری متن میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ عالمی زبانوں کے ادب کی اردو میں منتقلی ہو یا اردو ادب کی دنیا کی دیگر زبانوں میں تبدیلی ،یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے جس کا ایک مقصد تو ایک زبان کے اعلیٰ تخلیقی مواد کودوسری زبان میں منتقل کر کے اسے ثروت مند کرنا ہوتا ہے ،دوسر ایہ کہ ایک زبان کے فن پاروں کودوسری زبان کے قاری تک پہنچانا بھی مقصودہوتاہے۔عالمی ادب کی اردو میں منتقلی کا اب تک کا قابل قدر کام اجمل کمال کا ہے کہ انھوں نے تراجم کا جتنا کام فرد واحد کی حیثیت سے کیا ہے اتنا پاکستان میں موجود سرکاری علمی و ادبی اداروں نے مل کر بھی نہیں کیا ہوگا۔اسی طرح محمد سلیم الرحمن نے اوڈیسی کا جوترجمہ کیا ہے وہ بھی قابل داد ہے ۔اکادمی ادبیات کے تحت تراجم کے حوالے سے ایک اہم کام حال ہی میں سامنے آیا ہے اور وہ ہے اقبال کی منتخب نظموں کاپاکستان کی مقامی زبانوں میں منتقلی کا۔اس وقت میرے سامنے اقبال کی نظموں کے سرائیکی تراجم ہیں جو معروف شاعر سید ضیا الدین نعیم کی کاوش ہیں۔ اقبال اردو کے عظیم شاعروں میں سے ہیں اور ان کا کلام کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔قبل ازیں اسیر عابد نے غالباً بال ِ جبریل کو پنجابی میں ترجمہ کیا ہے ۔اسیر عابد نے دیوانِ غالب کو بھی پنجابی میں منتقل کیا ہے اور یہ اتنا شاندار کام ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔چند اشعار دیکھیے
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر
(اقبال)
کْنڈلائیاں ہوئیاں زلفاں نوں توں ہور ذرا کْنڈلا سجنا
عقلاں نوں جال پھسا سجنا، عشقاں نوں پھاہیاں پا سجنا
(اسیر عابد)
دِ ل نہیں ورنہ دکھاتا تجھ کو داغوں کی بہار
اِس چراغاں کا کروں کیا کار فرما جل گیا
(غالب)
دِل ہونداتے آپے تینوں بلدے داغ وِکھاندا
میں ایہہ دِیوے کتھے بالاں بالن والابلیا
(اسیر عابد)
غالب کی ایک غزل جسے صوفی تبسم نے پنجابی کے قالب میں ڈھالاتھا، آج بھی دنیا میںاس کی دھوہوم مچی ہو ئی ہے۔
وداع و وصل جداگانہ لذتے دارد
ہزار بار برو، صد ہزار بار بیا
(غالب)
بھانویں ہجر تے بھانویں وصا ل ہووے
وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں
میرے سو ہنیا جا ہزار واری
آ جا پیاریا تے لکھ وار آ جا
(صوفی تبسم)
سید ضیا الدین نعیم کے ان تراجم کے فنی محاسن پر بات تو کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیںکہ اس کالم کا دامن اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔میںیہاں صرف تعارف کرادیتا ہوں۔اقبال کی جو نظمیں ان تراجم کے لیے منتخب کی گئیں ہیں وہ اقبال کی شاعری کا دل سمجھی جاتی ہیں۔ ان میں مسجدِ قرطبہ،خضرِ راہ،جوابِ خضر،شمع اور شاعر،جبریل و ابلیس محبت،لالہ ء صحرا،لینن خدا کے حضور میں،حقیقتِ حسن،پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ اور خطاب بہ جوانان ِاسلام شامل ہیں۔یہ تراجم جہاں سرائیکی زبان کی وسعت کے شاہدہیں وہیں مترجم کی تخلیقی فعالیت کا ثبوت بھی بہم پہنچاتے ہیں۔اقبال کو ترجمہ کرنا کس قدر مشکل کام ہے یہ ان تراجم سے آشکار ہے ۔میں سمجھتا ہوں یہ پل صراط پہ چلنے کے مترادف ہے،اگر آپ اس راہ سے سلامتی کے ساتھ گزر آئیں تو اور کیا چاہیے۔ضیا الدین نعیم کے ان تراجم سے چند اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں تاکہ ان کے کمالِ فن سے آگاہی ہوسکے۔
رنگ ہو یا سنگ و خشت،چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ ء فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
سُردا،رنگیں دا،بھاویں لفظیں دا یا تعمیردا
سخت محنت نال بنڑدے،فن کوئی وی معجزہ
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ ء مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں،کار کشا وکار ساز
ہتھ ھء اللہ سئیں دا جو ھء بندہ ء مومن ہتھ
کم سنوارنْ آلا،قادر،کمیں دا خالق ،اچا
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
کامیابی کینی ملدی سچی محنت دے بغیر
نغمہ سوہنا کینی بنڑدا ،دل دی چاہت دے بغیر
اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تُو
آہ اے ناداں ! قفس کو آشیاں سمجھا ہے تُو
خوش نمئی دے دوکھے کوں توں گلستاں سمجھی ودیں
ہئے وو کملا! جال کو توں آ لھناں سمجھی ودیں
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر
کاشغر تئیں نیل دے ساحل کنوں کٹھے ہوون
سانبھ گھنن ول مسلماں کم حرم دی سانبھ دا
بے خبر ! تُو جوہرِ آئینہ ء ایام ہے
تُو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
غافلا! توں جند ہیںہستی دی ساری کھیڈ دی
توں زمانے وچ خدا دا ہیں سنیہا چھیکڑی