پچھلے دنوں خاصی اہمیت کے حامل چند اعلیٰ عہدوں پر یکے بعد دیگرے ایسی تقرریاں کی گئی ہیں جس پر ملک کے ذی شعور اور سنجیدہ فکر طبقے کا تشویش میں مبتلا ہونا ایک فطری امر ہے جبکہ ملک میں ان عہدوں کے لئے افراد اور شخصیات موجود تھے۔ مگر ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہمارے سیاستدان طبقے نے بالخصوص حکمرانوں نے ملکی و قومی مفادات کے برعکس ہمیشہ اپنے منظور نظر افراد کو فوقیت دی اور نوازا۔ یہی وجہ اداروں کے انحطاط کا سبب بھی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے اس امر کو درخور اعتناء نہیں سمجھا کہ ان تقریریوں سے ملکی مفادات کو کس قدر نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس حوالے سے ایک تقرری محترمہ کشمالہ طارق کی بطور وفاقی خاتون محتسب کی ہے۔ کشمالہ طارق جو پرویز مشرف دور میں خواتین کی مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن تھیں اور علاوہ ازیں مبینہ طور پر وہ سماجی، رفاحی اور انسانی حقوق کے سلسلے میں بھی مصروف عمل رہی ہیں۔ ان کی یہ تقرری محترمہ یاسمین عباسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد عمل میں آئی ہے۔ 2010 ء میں خواتین کو ہراساں کرنے اور ان پر زیادتیوں کے ازالہ کے لیے خاتون محتسب کا تقرر عمل میں لایا گیا۔ احستاب عدالت ایک باوقار عدالت ہوتی ہے جس کا تقاضا ہے کہ اس کا سربراہ ماہر قانون ہو اور عدالتی امور میں وسیع تجربہ بھی رکھتا ہو تاکہ مختلف نوعیتوں کے مقدمات کی سماعت کے لیے وہ قانونی تقاضوں کو سمجھنے اور پھر ان تقاضوں کے مطابق فیصلے جاری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہاں اس کا ذکر بھی بے جا نہ ہوگا کہ وفاقی محتسب کے لیے ضروری ہے کہ اس کی قابلیت ہائی کورٹ کے جج کے برابر ہو اور ہائی کورٹ کے جج کے لیے قانون کا 15 سال کا تجربہ ضروری ہوتا ہے۔ یہ عقدہ اس وقت کھلا کہ کشمالہ طارق ان خصوصات کی حامل نہیں ہیں جب ’’وقت چینل‘‘ کے سینئر اینکر پرسن اور کورٹ رپورٹر مطیع اللہ جان نے کشمالہ طارق کا انٹرویو کرتے ہوئے اس حوالے سے ان سے سوال کیا تو وہ کوئی جواب نہ دے سکیں اور غصے بھری آواز میں کہا کہ آپ یہ سوال میری تقرری کرنے والی اتھارٹی سے کریں۔ جب اینکر پرسن نے جب یہ استفسار کیا کہ جب آپ پرویز مشرف دور میں ممبر قومی اسمبلی تھیں تو آپ کو کس نے نامزد کیا تو بھی جواب ندارد اور پھر اینکر پرسن نے ان کے موجودہ عہدہ خواتین وفاقی محتسب کے حوالے سے یہ پوچھا کہ یہ بتائیں کہ اس وقت پاکستانی خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو کشمالہ طارق اس کا کوئی موثر جواب نہ دے سکیں اور اینکر پرسن کے خلاف ایسے جملوں کا استعمال
کیا جو شائستگی کے معیار پر پورے نہیں اترتے بلکہ باآواز بلند اپنے عملے کو احکامات جاری کرتی رہیں کہ’’ پولیس کو بلائو ‘‘ انہیں گرفتار کر لو،کوئی باہر نہ جانے پائے اور ان کے عملے نے مطیع اللہ جان اور ان کے ساتھ آئے ہوئے دو کیمرہ مینوں ، پروڈیوسر اور کانٹنٹ پروڈیوسر کو بری طرح زدوکوب کیا ان کے کپڑے پھاڑ دئیے گئے اور انہیں کئی چوٹیں آئی اور دروازے بند کرکے ان کو دو گھنٹے سے زیادہ حبس بے جا میں رکھا اور یہ سب کچھ اعلیٰ عہدہ پر فائز اور انسانی حقوق کی پاسدار قومی اسمبلی کی سابق ممبر کشمالہ طارق کے ایماء اور احکامات پر کیا گیا جس پر ملک کا ذی شعور اور سنجیدہ فکر طبقہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا ایسی شخصیات کو باوقار احتساب عدالت کے اعلیٰ عہدہ پر فائز رکھنا حق بجانب ہے؟ دریں اثناء کشمالہ طارق کے خواتین وفاقی محتسب کی تعیناتی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کردیا گیا ہے۔ عدالت عالیہ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اس کی سماعت کر رہے ہیں۔ جس میں صدر مملکت کے سیکرٹری، وزارت قانون انصاف کے ڈپٹی سیکرٹری اور وفاقی محتسب کے سیکرٹریٹ کے سیکرٹری اور خود کشمالہ طارق کو فریق بنایا گیا ہے۔درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ کشمالہ طارق کو نہ تو وکالت کا تجربہ ہے اور نہ ہی انہوںنے خواتین کے حقوق کے لیے کوئی خدمات سر انجام دیں ہیں انہیں محض حکمران جماعت کے ساتھ سیاسی وابستگی کے باعث تعینات کیا گیا ہے۔ اب ذکر ہے دوسری تقرری کا جو امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی ہے اور یہ ہے علی جہانگیر صدیقی جن کا قریبی رشتہ ایک میڈیا ہائوس کے مالک سے ہے جو موجودہ حکومت کے زبردست حامی ہیں اور پاکستانی عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ علی جہانگیر صدیقی کے والد جہانگیر صدیقی ایک بینک کے مالک ہیں اور اس حوالے سے علی جہانگیر صدیقی کو فنانس کی کچھ سُدھ بُدھ ہونے کا امکان تو ہو سکتا ہے تاہم ڈپلومیسی سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی کبھی وہ کیرئیر ڈپلومیٹ رہے ہیں اس تقرری کے پس منظر میں بھی کشمالہ طارق کی طرح ان کی وابستگی بھی حکمران جماعت سے ہے کہ اس تقرری سے پہلے وہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خصوصی معاون تھے جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ ایک سپر پاور ہے اور موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایجنڈے میں مسلم ممالک کے خلاف پالیسیوں کو ترجیح حیثیت حاصل ہے۔ بعین وجہ اس نے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی
فوج اور عوام کی بے پناہ قربانیوں کو پس پشت ڈال کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنا اپنے فرائض میں شامل کر رکھا ہے جن میں پاکستان کی مالی امداد کی بندش اور دیگر کئی عوامل شامل ہیں۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ سے ایک عالم واقف ہے اور سہ فریقی گٹھ جوڑ کا مقصد ملت اسلامیہ اور پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرنا ہے۔ پاکستان جو اس وقت کئی بحرانوں میں مبتلا ہے اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ امریکہ میں پاکستان سفیر جیسی اہم حیثیت پر کسی محب وطن، تجربہ کار اور پاک امریکہ تعلقات پر پوری دسترس رکھنے والے کسی کیر ئیر ڈپلومیٹ کو امریکہ میں سفیر مقرر کیا جاتا تاکہ وہ امریکی انتظامیہ کو باور کراتے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان، پاکستان عوام اور پاکستانی فوج نے لازوال اور تاریخی کردار ادا کیا ہے اور امریکہ کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائے مگر مذکورہ میڈیا ہائوس اور بھارت و امریکہ کی خوشنودی کے حصول کے پیش نظر سفارت کاری میں نا تجربہ کار علی جہانگیر صدیقی کو امریکہ کا سفیر مقرر کر دیا گیا جو ڈپلومیسی کی اے بی سی سے بھی واقف نہیں۔ ان کی تقرری سے قوم میں خدشات اور تشویش پائی جاتی ہے کہ بھارت نواز میڈیا ہائوس کے مالک سے قریبی تعلق داری کے باعث علی جہانگیر جیسے نا پختہ ذہن کو امریکہ جیسے اہم ملک میں سفیر تعینات کردیا گیا جو کسی بھی طور ملک و قومی مفاد میں نہیں۔ ہم بلا تخصیص و تفریق ہر سیاسی جماعت، سیاسی رہنمائوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات ، قومی اداروں کے سربراہوں اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ عرض گزار ہیں کہ وہ ملکی و قومی اور حساس معاملات پر اتحاد و یگانگت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا لائحہ عمل مرتب کریں کہ حساس اور اہم عہدوں پر سیاسی ، جماعتی اور ذاتی وابستگیوں سے بلند ہوکر ایسی شخصیات کا تقرر کیا جائے جو نہ صرف ان عہدوں کے اہل ہوں بلکہ اپنے دل میں قوم و ملک کا درد رکھنے کے علاوہ مسلمہ طور پر محب وطن ہوں۔