شہباز شریف نے ڈیرہ غازی خان کے خطاب میں ’’عملی سیاست کا راستہ پیش کیا ہے۔ ان کا مؤقف کہ عدلیہ‘ فوج اور پارلیمنٹ کو مل بیٹھنا چاہئے۔ یہ وہی موقف ہے جو پہلے ہی شہباز شریف کے حوالے سے معروف ہے۔ شہباز شریف کی تقریر حقیقی لیگی صراط مستقیم کی غمازی کرتی ہے مگر وہ اپنے تاحیات قائد نواز شریف اور مریم نواز کے ’’اینٹی اداروں‘‘ پر مبنی بیانیہ کے ساتھ کس طرح ’’مستقبل‘‘ کی صورت گری کر سکیں گے جبکہ اواخر مارچ تو نواز شریف کیلئے مزید ’’بند گلی‘‘ کا منظر تخلیق کر سکتا ہے۔ چودھری نثار علی کا مؤقف جو انہوں نے حال ہی میں پریس کانفرنس کے ذریعے پیش کیا۔ حقیقت ثابتہ ہے جبکہ نواز شریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ و عدلیہ کلب میں تو ’’مدبر‘‘ چودھری نثار علی خاں معتوب اور گنہ گار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ’’فطرت‘‘ یا ’’امر ربی‘‘ شہباز شریف درست بیانیے کیلئے کتنی کشادگی پیش کریگا؟ قابل توجہ امور میں سے یہ بھی اہم ترین ہے۔ فوج عملی سیاست میں بالواسطہ کردار سے بھی بہت دور کا ہے۔ مگر محمود خان اچکزئی نے جو کچھ قومی اسمبلی میں کہا اور حاصل بزنجو نے جو کچھ سینٹ میں کہا اس کا مطلب و مفہوم مسقبل کے سچ مچ کے دگرگوں حالات بلوچستان بھی تو ہو سکتے ہیں؟ جبکہ فوج طویل جدوجہد کے ذریعے بلوچستان میں تعمیر و ترقی‘ عوامی فلاح و بہبود کی فراہمی میں مصروف ہے۔ 23 مارچ ہماری قومی تاریخ میں تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر اس تناظر میں دیکھیں تو تاریخی طور پر مسلمان جتنا منظم اور متحرک تھے آج اتنے ہی منتشر‘ غیر متحرک‘ زوال کی بدترین ضرورت کے حامل ہیں۔ ہمیں اپنے آئینی اداروں کے ساتھ بطور خاص کھڑا ہونا چاہئے کیونکہ آج فوج کی مدد‘ حمایت‘ تائید کا مطلب یہ بھی ہو گا کہ برصغیر میں عذاب سے دوچار مسلمانوں کیلئے سہارا‘ مدد‘ امید کی فراہمی ہو۔ ماضی میں مسلمان عسکری طاقت کے زوال یعنی مغل حکمرانی زوال کی روشنی میں ہی شاہ ولی اللہ نے افغانستان کے احمد شاہ ابدالی کو مسلمانوں کچھ نازل سیاسی و معاشی و سماجی طور پر ہندو مرہٹوں کی ہمہ گیر یلغار کے جواب میں دعوت حملہ دی تھی مسلمان دشمنی اور جارح ہندو ازم کا جو عہد شاہ ولی اللہ کو احمد شاہ ابدالی تک لے گیا آج وہی ہندو مرہٹہ عہد بی جے پی کی حکومت‘ سیاست‘ ثقافتی حکمت عملی کی صورت میں طلوع شدہ ہے۔ اگر آپ سماجی و معاشرتی علوم کے ماہر ہوں‘ سیاسی حرکیات کے فہم سے بھی آشنا ہوں تو آپ کو شاہ ولی اللہ کی طرح ’’عسکری وجود‘‘ سے قریبی تعلق رکھنا ہو گا۔ نواز شریف اینٹی عسکری اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی عدلیہ بنانیے کا نام ہے جبکہ شہباز شریف شاہ ولی اللہ کے حکمت و فراست بیانیے کے مداح ہیں۔ دونوں میں سے کسی ایک بیانیے کیلئے قدرت الٰہی‘ فطرت اور امر ربی نے کشادگی اور مواقع اقتدار پیدا کرنے ہیں۔ دونوں بیک وقت قابل عمل نہیں ہو سکتے لہٰذا شہباز شریف کیلئے مشکل ترین راستہ نواز شیلف بیانیے کا حکمت و دانائی سے ’’علاج‘‘ کرنا کافی نہیں ہو گا بلکہ انہیں صرف اپنے بیانیے کی کامیابی کیلئے مسلم لیگ (ن) میں نئے عہدے دار بھی سامنے لانا ہوھگے۔ مریم نواز شریف کو اپنے گھر کی طرف لوٹنا ہو گا۔ مسلم لیگ میں خاتون قائد کا رواج نہیں۔ غالب و اقبال شناس ماہر فلکیات پروفیسر غنی مریم نواز بیانیے کو ’’مشتری‘‘ کی شرارت قرار دیتے ہیں جو 9 نومبر کو غروب ہو کر مریم کو ٹھنڈا ہونے پر مجبور کر دیگا۔ منصب سپیکر قومی اسمبلی ہماری پارلیمانی تاریخ میں اہمیت رکھتا ہے۔ گزشتہ ہفتے نصرت جاوید نے اپنے کالم میں گوجرانوالہ (احمد نگر) کے زمیندار گھرانے کے گوشہ نشین چودھری حامد ناصر چٹھہ کے بطور نگران وزیراعظم زیربحث ہونے کی طرف توجہ دلائی جبکہ ایک خبر کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی خانیوال کبیر والا کے فخر امام کو نگران وزیراعظم بنوانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ حسن اتفاق سے مجھے ان دونوں قابل قدر سابق سپیکرز قومی اسمبلی کے ملنے جلنے‘ ان کے گھر کا نمک کھانے کا بے تکلف ماحول میسر آیا تھا۔ چودھری حامد ناصر چٹھہ سے تعلق کالج میں بطور معلم تدریس ختم کر کے مسلم لیگی سیاست میں شمولیت‘ مثالیت پسندی‘ اخلاقی اصول و ضوابط و اقدار سے قلبی تعلق کی بنا پر محمد خاں جونیجو کے سبب میسر آیا اور شخصیت شناسی تک یہ مرحلہ طویل ہو گیا۔ فخر امام سے تعلق ان کے سپیکر قومی اسمبلی سے معزول ہونے کے بعد آزاد گروپ جس میں سینیٹر جاوید جبار‘ سینیٹر طارق چودھری‘ جاوید ہاشمی‘ بیگم عابدہ حسین‘ سردار آصف احمد علی وغیرہ شامل تھے کے منظر نامے میں طارق چودھری کے ذریعے شناسائی کا راستہ بنا۔ اگرچہ بیگم عابدہ حسین دبنگ خاتون سیاست دان اور زور آور تھی مگر مجھے نستعلیق سے‘ مکمل سیکولر مزاج کے‘ کتاب سے محبت کرنے والے فخر امام نے متاثر کیا۔ وہ مجھے اچھے لگتے تھے۔ میری کوشش ہوتی انکی سوچ کا ادراک کر سکوں اور وہ مجھے ’’بخیل‘‘ بھی نہیں محسوس ہوئے۔ کھلے دل کے‘ کھلے دماغ کے جاگیردار شیعہ خاندان مگر قائداعظم کی طرح مذہبی و مسلکی معاملات میں مکمل سیکولر‘ ہاں بیگم عابدہ حسین مسلکی معاملات میں اپنے والد کرنل عابد حسین کے نقش قدم پر کہی جا سکتی ہیں۔ مجھے جب بھی اسلام آباد میں انکے گھر جانے کا موقع ملا میں نے اس کمرے کا رخ کیا جہاں کتابوں کا ذخیرہ دعوت نظارہ و مطالعہ اکثر دیتا ہے۔ یہ کمرہ اور اس کی کتب مجھے فخر امام کیلئے کشش اور قریب تر ہونے کی طرف متوجہ کرتیں۔ خواتین کی سماجی و سیاسی مکمل آزادی فکر فخر امام سے وابستہ‘ ان کی جاگیردار بیگم خود سیاست دان اور پھر بیٹی صغریٰ امام پی پی پی سے وابستہ سینیٹر تھی۔ حامد ناصر چٹھہ بار ایٹ لاء کے طالب علم تھے کہ والد کی بیماری نے بار ایٹ لاء ڈگری سے محروم کیا جب واپس آئے پھر احمد نگر کے ہو کر رہ گئے۔ خاندانی طور پر پکے مسلم لیگی‘ مزاج زمیندارانہ دیہاتی‘ خاندانی اور گھریلو معاملات (جن میں خواتین معاملات بھی شامل) میں مکمل کنزرویٹو دوستی اور مخالفت میں پکے‘ وعدہ کیا تو مکمل کیا۔ بیرون ملک جب بھی گئے عمدہ ترین خوشبو اور کتاب خریدیں۔ مجھے ان کی خوشبوؤں اور کتابوں پر شب خون مارنے کی آزادی میسر رہی ہے۔ پی ڈی ایف اقتدار کے بعد گوشہ نشین ہو گئے۔ اپنی زمینداری کی طرف توجہ‘ بچوں کو سیاست کی طرف اور خود سگار پینا‘ سبزیاں کھانا بطور خاص شلجم‘ گوشت بہت معمولی‘ وسیع الظرف‘ باحوصلہ‘ باہمت‘ سخت معیار کے مردم شناس‘ مجھے لاہور جانا ہوتا تو ہوٹل میں قیام کرنا ناممکن ہوتا۔ صرف ایک مرتبہ بتایا رہائش پرابلم ہے۔ تب سے لاہور کے چٹھہ ہاؤس کا وہی کمرہ جس میں محمد خاں جونیجو قیام کرتے تھے میرے لئے وقف ہے۔ فخر امام اور حامد ناصر چٹھہ دیہاتی زندگی کے دو قابل احترام کردار‘ فخر امام گھر کی خواتین کو سیاست میں آنے کا قائل چٹھہ گھر کی خواتین کو گھر میں رکھنے کا حامل مزاج‘ چٹھہ کی بیوی مخلوط اجتماع یعنی شادی و غمی میں کبھی مردوں کے سامنے نہیں آئیگی۔ بیٹیاں بھی شادی شدہ اور اپنے گھروں میں بطور ماں اور بیویاں۔ کوئی ان کا سیاسی کردار نہیں۔ چٹھہ محبت پاکستان میں اتنا سرشار کہ سقوط ڈھاکہ پر غیرت میں آ کر مونچھیں منڈوا دیں۔ اب بھی اسے ذات کی سیاست سے ہرگز دلچسپی نہیں بلکہ تحفظ سرزمین کی فکر لاحق ہے۔ مکمل وفا‘ یارانے کا ثابت قدم کردار‘ مزاجاً فوجی ذہن کا مگر تنہائی پسند‘ اپنی ذات کیلئے شرمیلا دوسروں کیلئے جائز حدود میں رہ کر دست طلب تک پیش کرتا ہوا۔ کاش لیگی سیاست میں انتشار کی جگہ اجتماع ہوتا جس میں مدبر سیاست چودھری شجاعت حسین شاید کوئی کردار ادا کر سکیں۔