سلیم ناز
غلام فرید بھٹی مصورانہ فن خطاطی میں ایک خاص پہچان رکھتے ہیں ان کا فنی سفر یچپن تک پھیلا ہوا ہے۔ میٹرک کے بعد نیشنل کالج آف آرٹس میں باقاعدہ طور پر خطاطی کے تمام مراحل طے کئے اور قرآن پاک کی آیات کو خطوط طغریٰ اور خطہ گلزار میں لکھنے میں مہارت پائی۔ ایک عرصہ تک بی ٹی ایم سکول بورے والا میں تدریس سے وابستہ رہے۔1974ء میں ملتان آگئے اور کمپری ہنسو ہائی سکول میں طلباء کی ذہنی آبیاری کا آغاز کیا۔فن خطاطی کی ترویج وترقی کاسفر بھی جاری رہا۔ 1980ء میں ایک دم یہ فن تحریک کی صورت میں منظر عام پر آیا۔ خطاطی کے فن پاروں کی نمائش ہونے لگیں۔ باذوق لوگوں نے ان کے فن خط طغریٰ کوسراہا۔
انہوں نے بتایا ملتان میں پاکستان نیشنل سنٹر کے غضنفر مہدی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر نے1974ء میں میری خطاطی کی پہلی نمائش کرائی۔ اس کے بعد نمائشوں کاایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ مختلف سکولوں اوردوسرے اداروں میں نمائشیں ہوئیں۔ تاج محمد لنگاہ ڈائریکٹر ایجوکیشن ملتان ڈویژن ، علامہ غلام شبیر بخاری، سکالرانیمری شمل( مغربی جرمنی)،ڈاکٹر شیر محمد زمان وائس چانسلر اوپن یونیورسٹی اسلام آبادنے ان نمائشوں کاافتتاح کیا۔ یہ دسمبر1977ء کی بات ہے کہ پاکستان نیشنل سنٹر میں میری خطاطی کی نمائش کاافتتاح ڈاکٹر شیر محمد زمان وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اہتمام کیا۔افتتاح کے لئے صدر پاکستان محمد ضیاء الحق تشریف لائے۔ انہوں نے مجھے دس ہزارروپے نقد انعام دیا اور ساتھ ہی آرمی وفد میں حج کے مقدس فریضہ کی ادائیگی کی سہولت فراہم کی۔نمائش میں پیش کئے گئے تمام خطاطی فن پارے جنرل ضیا ء الحق کی خصوصی فرمائش پر علامہ اقبال اورپن یونیورسٹی کو عطیہ کرد ئے گئے۔
بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی سالانہ سائنس کانفرنس میں خطاطی کی نمائش ہوئی۔ پھر1978ء میں نیشنل سنٹر ملتان میں خطاطی کی نمائش کرائی گئی جس کاافتتاح ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل اعجاز عظیم نے کیا اور3500 روپے نقد انعام دیا۔ ملک کے دوسرے بڑے شہروں جن میں لاہور، کراچی، حیدر آباد، پشاور اور کوئٹہ میں بھی فن پاروں کی نمائشیں ہوئیں۔ غلام فرید بھٹی کے فن کو سراہتے ہوئے لوگوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملتان کے تاریخی فنی ورثے کو نئی زندگی دی ہے۔ جس کا ثبوت ان کے خطاطی کے فن پارے ہیں۔ انہوں نے الفرید خطاطی اکیڈمی کے نام سے ا یک ادارہ قائم کیا جوفن خطاطی کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ان کے فن پارے اس امر کے گواہ ہیں کہ وہ روایتوں کے امین بھی ہیں اورانہوں نے اس میں جدت کے رنگ بھی بھرے ہیں۔1977ء میں انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نواز گیا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا وقت کے ساتھ ساتھ فن خطاطی کے اسلوب میں کئی تبدیلیاں پید اہوئی ہیں۔ ایک دور تھا جب درختوں کی چھال، پتوں اورچمڑے پرخطاطی ہوا کرتی تھی۔ آج یہ عمل کینوس پر ہورہا ہے۔ کاغذ، کینوس، بار بورڈ، چمڑا ، پلاسٹک شیٹ، کٹ ورک، پلاسٹک، مختلف مارکر اوررنگوں کی کہکشاں فن خطاطی کی بنیادی ضرویات میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا شاکر علی، حنیف رامے اور صادقین مصوارانہ خطاطی کے بانیوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے خطاطی کو نئے اسلوب دئے۔ مصورانہ خطاطی بابرکت لفظوں کو حسین رنگوں کے امتزاج سے نمایاں کرنے کانام ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا میں اپنی زندگی اور فن دونوں سے پوری طرح مطمئن ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے شہرت بھی عطا کی اور فن پاروں کی صورت میں میرے پاس کثیر سرمایہ بھی موجود ہے جو مجھے تادیر زندہ رکھیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہو تا ہے۔کہ سکولوں میں ڈرائینگ کامضمون تقریباً ختم ہو کررہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاںخوشخطی کم ہی نظر آتی ہے ۔ سرکاری سطح پر بھی اس فن کی سرپرستی نہ ہونے کے برابر ہے۔فنون لطیفہ کی ترویج وترقی کے لئے قائم کئے گئے ادارے صرف’’ انپی ترقی‘‘ کے لیے کوشاں ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں کے کہا علاقائی تہذیبی روایات وثقافت اس خطے کی پہچان ہوتی ہیں۔ بڑے شہروں میں رہنے والوں کوسہولتیں بھی بڑی میسر ہوتی ہیں۔ اس لیے وہ ان کامعمولی فن بھی بڑی شہرت پالیتا ہے جبکہ پسماندہ شہروں میں رہنے والے بڑے بڑے فنکار بھی کبھی اپنے شہر کی حدود سے باہرنہیں نکل پاتے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا۔ بیشتر سکولوں میں اساتذہ کی لکھائی انتہائی غیر معیاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طلباء و طالبات خوشخط نہیں ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ سکولوں میں اساتذہ کی خوشخطی کیلئے خصوصی تربیتی ورکشاپ منعقد کی جانی چاہئیں تاکہ وہ یہ فن نئی نسل تک منتقل کر سکیں ۔
’’ پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی نے غلام فرید بھٹی کو ملتان کاقیمتی سرمایہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ہمارے ملتان کی منفرد پہچان ہماری ثقافت کابلند نشان اور فن خطاطی کے حوالے سے ہمارا اعزازوافتخار اور شان ہیں‘‘ انہوں نے فن خطاطی پر ایک کتاب لکھی ہے جو اس فن کا ایک مختصر اور جامع ’’انسائیکلو پیڈیا‘‘ ہے ۔ جسے اہل ذو ق انپے علم وخبر میں اضافے کے لئے پڑھیں گے اور جسے ہنر شناس افراد تحصیل کمال کے لئے زیر مطالعہ لائیں گے۔ گویا بھٹی صاحب کی یہ قلمی کاوش ہر ’’طالب علم‘‘ اور ہر ’’طالب فن‘‘کے لئے مصدرفیض اور منبع، استفادہ ہوگی۔ انہوں نے کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا اورقاری کی نظروں کوشاداب اورروح کو سیراب کردیا ہے۔ رسم الحط کی اقسام کے ذکر میں محل وموقع کی مناسبت سے اس فن کے مشہور آئمہ واکابرین کاذکر کیا ہے ا ور ان کی ایجادات برکات اورفیوض وثمرات کو نمایاں انداز میں پیش کیا ہے۔
مصورانہ خطاطی بابرکت لفظوں کو حسیں رنگوں سیمزین کرنے کا نام ہے‘ صدارتی ایوارڈ یافتہ غلام فرید بھٹی
Mar 20, 2018