کشمیر میں غیر روائتی سیاست کاآغاز

جی این بھٹ
مقبوضہ کشمیر میں ان دنوں آئی اے ایس کے ٹاپر اور سول سروس کی پُرکشش نوکری چھوڑ کر میدانِ سیاست میں نام پیدا کرنے عوام کے مسائل حل کرنے کا عزم لے کر کودنے والے نوجوان شاہ فیصل کے چرچے ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے سری نگر شہر کے ایک پارک میں اپنی جماعت کا تاسیس کنونشن منعقد کیا جس میں سول سوسائٹی کے علاوہ دانشور اور پڑھے لکھے طبقات کے نمائندوںکی بڑی تعداد شریک تھی۔ اپنی جماعت کانام شاہ فیصل نے ’’پیپلز جموں کشمیر موومنٹ‘‘ رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور دہلی کے وزیراعلیٰ کیچروال سے بہت متاثر ہیں۔ وہ عمران خان کی مسلسل جدوجہد اور کچریوال کی عوام دوست سیاست کو مدِنظر رکھتے ہوئے کشمیری عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔
موجودہ حالات میں ان کی یہ باتیں نوجوانوں کے دل لبھا رہی ہیں۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد ان کے اردگرد جمع ہے۔ گزشتہ 71 برسوں سے سیاستدانوں کی دوغلی پالیسیوں اور عوامی جذبات اور احساسات سے ہٹ کر حکمرانی کرنے والوں سے بیزار عوام اب شاہ فیصل کی طرف دیکھ رہے ہیں مگر سنجیدہ سوچ رکھنے والے کشمیری سیاست میں تبدیلی کے نام پر در آنے والے نوجوان کی طرف سے محتاط روی کا مظاہرہ کررہے ہیں کیونکہ اس وقت تحریک آزادی عروج پر ہے۔ بھارت کشمیریوں کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ نئی نسل کو جو بغاوت پر آمادہ ہے اندھا یا معذور بنایا جا رہا ہے۔ ان حالات میں اس طرف سے قطع نظر کر کے کوئی بھی سیاستدان کس طرح مقبوضہ کشمیرمیں عوامی مسائل کے حل کرنے اور وہاں کے حالات میں سدھار لانے کی بات کرتا ہے۔ اگر مسئلہ کشمیر معاشی طور پر حل ہونا ہوتا تو بھارت کشمیر میں سونے کے پہاڑ لا کھڑا کرتا اور یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیتا۔ مگر کشمیری بھارت کی کسی مالی پیشکش کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ سیاسی جماعتیں البتہ حکمرانی کے لئے بھارتی مراعات اور پیشکشوں پر ایمان لاتے ہیں تاکہ انہیں کشمیر کی حکمرانی کا پروانہ مل سکے۔
موجودہ حالات میں یہ جماعتیں بھی عوام کی اشک شوئی کرنے کی کوشش کرتی نظرآتی ہیں ترقی پذیر ممالک کے لوگ ویسے ہی وٹامن اور معدنیات سے محروم رہتے ہیں ہیں۔ مگر حیرت کی بات ہے شاہ فیصل اس بارے میں کوئی واضح لائحۂ عمل عوام کے سامنے نہ لا سکے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کشمیر کے سب سے اہم مسئلہ کی طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں جس طرح ماضی میں شیخ عبداللہ نے بھرپور عوامی حمایت کے باوجود نیشنل کانفرنس کو گانگریس اور بھارت کی جھولی میں ڈال کر عوامی جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا اور کشمیر کی تحریک آزادی قومیت کے نیشنل ازم کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی۔ اب ایک مرتبہ پھر دہلی سرکار کی طرف سے ایک نیا پتھر تراش کر اسے ہیرا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جو نوجوانوں کے جذبات اوردماغ کو نہایت مہارت سے خوشنی کے نعروں، اقتصادی و معاشی ترقی کے نام پر ان کے اصل مقصد سے ہٹا کر ایک مرتبہ پھر بھارت کے زیرسایہ غلامی کی راہ پر لے جائے گا۔ یوں شیخ عبداللہ کے بعد ایک نیا شاہ فیصل تراش کراسے رہنما بنا کر کشمیریوں کے گردن پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کشمیری عوام ،کشمیری دانشور اور محب وطن سیاستدان شاہ فیصل کے اصل کردار سے واقف ہو کر عوام کو اس کے چکر سے کس طرح بچاتے ہیں۔ سب کشمیری جانتے ہیں کہ کشمیر کوئی معاشی مسئلہ نہیں یہ کشمیریوں کے غضب شدہ حقِ خودارادیت کا مسئلہ ہے ورنہ بھارت نے تو کشمیریوں کو سنہری معاشی جال میں اس طرح پھنسایا ہے کہ کشمیر پورے بھارت میں سب سے زیادہ سبسڈی پر چل رہا ہے مگر اس کے باوجود کشمیری عوام بھارت سے علیحدگی چاہتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جموں کشمیر پیپلز موومنٹ کو عوام کی اکثریت کے جذبات اور احساسات کا ادراک نہیں وہ اس بارے میں خاموش ہے تو پھر ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ ’’بدلاؤ کس چیز میں لانا چاہتے ہیں‘‘…؟؟؟

ای پیپر دی نیشن