قیادت اور امامت

پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر نیاز احمد اختر نے نیوزی لینڈ کے شہدا کے لیے نماز جنازہ کی امامت خود کرائی۔ نمازوں کے لیے امامت کے فرائض پہلے قبیلے کے سردار ادا کیا کرتے تھے۔ سب سے بڑی مثال رسول آخرواعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ آپؐ نے ہی مسجد نبوی میں ہر نماز کی امامت فرمائی۔ اکثر ہر مرحوم کی نماز جنازہ کے لیے امامت فرمائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین نے یہ عظیم فرض سرانجام دیا۔ میں آج ہی وی سی سے ملنے کے لیے یونیورسٹی گیا تھا۔ مجھے معلوم ہوتا تو میں بھی اس منفرد نماز جنازہ کے لیے حاضر ہوتا۔ تحریک انصاف کے رہنما اعجاز چودھری بھی وی سی سے ملنے تشریف لائے۔ یہ رابطے قومی معاملات کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔ اعجاز چودھری دین اور دنیا کے معاملات بڑی حکمت سے چلاتے ہیں۔ اس میں سیاست کو ساتھ رکھتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ یونیورسٹی کے سربراہ نے یہ فریضہ سرانجام دیا۔ یہ ہم سب کے لیے اعزاز ہے۔ پورے ملک میں نیوزی لینڈ کے شہدا کے لیے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی مگر اس نماز جنازہ کا مرتبہ ہی کچھ اور ہے کہ عظیم ادارے کے سربراہ نے خود امامت فرمائی۔ یونیورسٹی کے محمود صاحب نے بتایا کہ لوگوں اور طالب علموں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ یونیورسٹی کے پی آر او خرم شہزاد نے بتایا کہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر نے خاص طور پر پنجاب یونیورسٹی کے گریجوایٹ سہیل شاہد کا ذکر کیا جو نیوزی لینڈ کے اس واقعے میں شہید ہوا۔ اسے خراج تحسین پیش کیا گیا۔ وی سی نے دہشت گردی کی مذمت کی۔ یہ کسی شکل میں بھی قابل معافی نہیں ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کا کالم ’’محراب‘‘ کے نام سے قابل ذکر ہے جس کا عنوان ’’اسلاموفوبیا‘…اور سفید فام دہشت گردی‘‘ ہے۔ کالم کی پہلی سطریں ہی بہت بامعنی اور معنی خیز ہیں۔’’ مغربی دنیا میں اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے دوری کو اسلامو فوبیا کے نام سے باقاعدہ ایک اصطلاح کے طور پر پہچانا جانے لگا ہے۔ فوبیا بنیادی طور پر ایک مرض ہے۔ بدقسمتی سے اہل مغرب گذشتہ چند دہائیوں سے اسلام اور مسلمانوں سے متعلق اس میں مبتلا ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام ایک متعصب دین ہے۔ جس کا رویہ غیر مسلموں کے ساتھ انتہا پسندانہ ہے۔ مسلمان ہر چیز کو رد کر دیتے ہیں جو اسلام کے خلاف ہو‘‘ اور یہ کہ اسلام اور مسلمان روادارانہ فلاحی معاشرے کے بنیادی عناصر جیسے مساوات، برابر، تحمل مزاجی انسانی حقوق اور جمہوریت جیسے تصورات سے نابلد ہیں۔‘‘
اگر یہ ہو کہ ادارے کے سربراہ اور قبیلے کے بزرگ دینی معاملات میں قیادت کرنے لگیں تو ایک کلچر وجود میں آئے گا جس میں سب لوگ آسانی محسوس کریں گے۔ میں نے بہت وائس چانسلر دیکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو یہ جرأت کر سکے۔ میں نے جرأت کا لفظ جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ ہم اتنے بزدل ہو گئے ہیں کہ ہمیں اصل قیادت کے معانی ہی بھول گئے ہیں۔ آج وائس چانسلر پروفیسر نیاز احمد اختر نے قیادت اور امامت کے فرق کو بہت کم کر دیا ہے۔ ہم نے عام طور پر امام کے مرتبے کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ نماز پڑھانے والے ایک آدمی کو امام کہا جاتا ہے اور بالعموم وہ مسجد میں طالب ہوتا ہے۔ وہیں سے پڑھ کر وہ اس مقام پر آسانی سے پہنچ جاتا ہے۔ وہ چونکہ شروع سے ہی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
اگر ہم نے امام کو سردار مانا ہوتا یا ہمارا سردار ہی ہمارا امام ہوتا تو ایک کلچر بنتا جو ہم سب کے لیے عزت کا باعث ہوتا۔ امامت اور قیادت میں کچھ فرق نہ ہوتا۔ جو دوئی حکومت اور حکمت میں ہے۔ جو دیانت اور قیادت میں ہے۔ وہ نہ ہوتی۔ ہم نے دین اور دنیا میں ایک دیوار کھینچ دی ہے۔ انہیں الگ الگ کر دیا ہے۔ ایک دوسرے کے روبرو نہیں رہنے دیا بلکہ ایک دوسرے کے دوبدو کر دیا ہے۔ دنیا والے دین سے رہنمائی لیں اور دین والے دنیا کے لوازمات کو ذہن میں رکھیں تو کوئی بات ہے۔ پروفیسر نیاز احمد اختر نے پنجاب یونیورسٹی میں دین و دنیا کے امتزاج سے ماحول کا مزاج بنانے کی کوشش کی ہے جو کامیاب ہے اور مددگار بھی ہے۔
وزیراعظم عمران خان بھی دین اور دنیا کے معاملات کو ایک ساتھ لے کے چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کا ان پر بہت اثر ہے۔ اس طرح ایک امتزاج نظر آتا ہے۔ عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں بشریٰ بی بی کا ساتھ ملا ہے۔ اب عمران خان ایک تبدیل شدہ آدمی ہیں۔عمرانہ مشتاق ایک بہت زبردست ادبی شخصیت ہیں۔ وہ سوشل معاملات میں بہت بھرپور دلچسپی لیتی ہیں۔ انہوں نے تحریک انصاف کے دفتر کو ایک علمی و ادبی مرکز بنا دیا ہے۔ یہاں مشاعرے ہوتے ہیں اور ادبی محفلیں بھی ہوتی ہیں۔ پچھلی ایک نشست میں تحریک انصاف کے سپورٹس اور کلچر کے مرکزی صدر عمر خیام اور تحریک انصاف پنجاب کے صدر میاں جاوید علی بھی موجود تھے۔ میاں صاحب کی تقریر سیاسی تھی۔ عمر خیام نے ادبی اسلوب میں زبردست تقریر کی۔ اس طرح تقریب کی حیثیت ادبی تھی اور سیاسی بھی بن گئی۔ یہ ایک کشادہ جگہ ہے۔ یہاں ثروت روبینہ سے بھی ملاقات ہوئی جو تحریک انصاف کی سرگرم لیڈر اور کارکن ہیں۔ عمرانہ مشتاق نے یہاں ادبی سرگرمیاں شروع کی ہیں۔ عمرانہ کے کچھ اشعار؎
احساس کی توقیر بڑھا کیوں نہیں دیتے
سوئے ہوئے جذبوں کوجگا کیوں نہیں دیتے
یا رب میرے اظہار تمنا میں ہے کیا عیب
دیتے ہیں سزا لوگ جزا کیوں نہیں دیتے
اک ساتھ اٹھاتے نہیں کیوں نور کی دیوار
چپ چاپ سبھی دیپ جلا کیوں نہیں دیتے

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...