کوروناکے ستائے عوام کی دہائی - آگے کنواں پیچھے کھائی

چین کے ایک شہر سے اپنا سفر شروع کرنے والا کورونا وائرس پوری دنیا کے لیے دہشت کی علامت بن کر آج ڈیڑھ سوسے زائد ممالک تک اپنی تخت و تاراج کا دائرہ وسیع کرچکا ہے۔یہ وائرس اب تک ہزاروں انسانی جانوں کی بھینٹ لے چکا ہے جبکہ متاثرین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اقوامِ متحدہ اسے عالمی وبا قرار دے چکی ہے۔ تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود وائرس کا بین الاقوامی پھیلائو اب تک روکا نہیںجا سکا ہے۔ اس کا شکار ہونے والے افراد زیر علاج، لاکھوں خطرے سے دو چار اور کروڑوں خوف زدہ ہیں۔البتہ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ چین میں اس مہلک مرض پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق چین کے بجائے اب یورپ کورونا وائرس کا عالمی مرکز ہے۔ امریکہ کی چھتیس ریاستوں تک یہ مرض پھیل چکا ہے جبکہ مبینہ طور پر7سے 15 کروڑ تک افراد کے اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے قومی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کردیا ہے۔ چین کے بعد سب سے زیادہ ہلاکتیں اٹلی میں ہوئی ہیں۔ مسلم دنیا میں ایران میں سب سے زیادہ لوگ نشانہ بنے ہیں۔ سعودی عرب میں آخری حد تک احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں اور طواف و عمرہ تک بہت محدود کردیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں کورونا کی وجہ سے جدید ترین نظام مواصلات بند پڑا ہے، تعلیمی ادارے خالی، دفتروں میں تعداد نہ ہونے کے برابر، بغل گیر ہونے والے ہاتھ ملانے سے بھی قاصرہیں۔ کاروباری مراکز بند اور اسپتال آباد ہو رہے ہیں۔ایک لاک ڈائون ہے جو جاری ہے۔ جنوری کے آغاز پر شروع ہونے والی وباء نے چین کو ہلا کر رکھ دیا تاہم کم سے کم عرصے میں چین نے یقین کی وہ منزلیں طے کیں جو پیغام دیتی ہیں کہ آفتوں، بحرانوں سے قومیں نکل سکتی ہیں ہجوم نہیں۔چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس جنوری میں انتہائی تیزی سے پھیلنا شروع ہوا تو چین نے ایمرجنسی اقدامات کیئے۔ پورے کے پورے شہروں میں قرنطینہ ڈکلیئر کر کے وائرس کو مزید پھیلنے سے روک دیا گیا، چند دنوں میں چودہ خصوصی اسپتال کھڑے کر دیئے گئے جن میں سے اب گیارہ اسپتال ختم بھی کر دیئے گئے ہیں۔عوام اور ریاست ایک ساتھ نظر آئے۔ 80 ہزار متاثرہ لوگوں میں سے 67 ہزار تندرست ہو چکے جبکہ نئے کیسز کی تعداد اب کم ہو چکی ہے۔کورونا وائرس نے عالمی معیشت پربھی سنگین اثرات مرتب کیئے ہیں۔ سرمائے کی منڈیاں اور تیل مارکیٹیں کریش کر گئیں جس سے سرمایہ کاروں کے کھربوں ڈالر ڈوب چکے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹوں سے سرمائے کا انخلا شروع ہو گیا، کاروباری سرگرمیاں مسلسل ماند پڑتی جا رہی ہیں، امریکہ، چین اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک سمیت پوری دنیا کی معیشتیں شدید دبائو کا شکار ہیں۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی بے روزگاری بڑھنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ نے 10 کھرب ڈالر سے زائد کے پیکج کی تیاری شروع کردی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ مالی مشکلات کے شکار خاندانوں کی بھی مدد کی جائے گی۔امریکی صدر نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ لوگ بے روزگار ہوں اور ان کے پاس زندگی گزارنے کو پیسے نہ ہوں۔امریکی وزیرخزانہ نے بے روزگاری 20 فیصد تک بڑھنے کا خدشہ ظاہر کردیا ہے۔ادھر برطانیہ نے بھی ٹیکس میں چھوٹ، مشکلات سے دو چار کاروباری اداروں کی مدد کے لیے تقریباً 420 ارب ڈالر کے پیکج کا اعلان کیا ہے۔ اٹلی نے خسارے کے باعث ایرلائن کو قومیا لیا ہے جبکہ فرانس نے بھی بڑے ادارے قومیانے کا عندیہ دے دیا۔پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری سے منسلک بہت سے لوگ پریشان ہیں۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یو این سی ٹی اے ڈی‘ یعنی کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ کے مطابق چین میں کورونا وائرس کے باعث اس کی برآمدات کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کی کئی معیشتیں اس کی زد میں آئی ہیں۔پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں سب سے زیادہ مندی دیکھی گئی۔ پاکستان میں سب سے زیادہ متاثرہ ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی ویلیو چین ہے۔ جس میں اب تک 4 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی کمی آئی ہے۔ پاکستان بھی کورونا وائرس کے اثراتِ بد کی زد میں آ چکاہے۔ 3سوزائد مریضوں میں کورونا وائرس کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔ متاثرین کی سب سے زیادہ تعداد سندھ میں ہے۔تعلیمی ادارے اور تفریح گاہیں عارضی طور پر بند کر دی گئی ہیں۔ عوامی اور سیاسی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ 5سے زائد افراد کے جمع ہونے کی بھی ممانعت کر دی گئی ہے۔ حکومت نے معیشت کو منفی اثرات سے بچانے کے لئے قومی ایمرجنسی پلان کی منظوری دی ہے۔کورونا کو روکنے کے لئے حکومت نے آگاہی مہم بھی شروع کر دی ہے جو ایک اچھا اقدام ہے۔ وزارت مذہبی امور نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ وبائی مرض سے بچائو کے لئے گناہوں سے توبہ اور اللہ کی طرف رجوع کریں۔ علما نے فتویٰ دیا ہے کہ وائرس کے حملے سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر کی اسلام نے اجازت دی ہے۔ ان پر عمل کیا جائے مصافحہ مستحب ہے، اسے ترک کیا جا سکتا ہے۔ صرف سلام پر اکتفا کیا جائے۔ بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کیلئے پاکستان میں داخل ہونے کیلئے کورونا ٹیسٹ لازم قرار دے دیا گیا ہے۔مسافر کیلئے پرواز سے 24 گھنٹے قبل ٹیسٹ کروانا ضروری ہے جبکہ تربت اور گوادر کے علاوہ پاکستان کے تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر بین الاقوامی ہوائی آپریشن دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ ملک میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سندھ کے بعد خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بھی اس وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی موجودگی کی تصدیق کی جا چکی ہے۔سندھ کے نئے مریض ہوں یا پنجاب اور خیبر پختونخوا کے پہلے کیس ان تمام متاثرین میں ایک چیز قدرِ مشترک ہے اور وہ یہ کہ یہ تمام لوگ ایران سے پاکستان آئے اور تفتان کے مقام پر بنائے گئے قرنطینہ مرکز میں 14 دن کی مدت گزارنے کے بعد اپنے علاقوں میں پہنچے ہیں۔تفتان میں بنائے گئے قرنطینہ میں دستیاب سہولیات اور وہاں کے انتظام کے بارے میں خدشات نئے نہیں۔ جب سے یہ قرنطینہ قائم کیا گیا تھا وہاں کے ناگفتہ بہ حالات اور حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال نہ رکھے جانے کے الزامات سامنے آنے لگے تھے۔اب صورتحال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر تفتان کا تقابل چین کے شہر ووہان سے کیا جانے لگا ہے۔ ووہان وہ مقام ہے جہاں سے کورونا وائرس کے پھیلائوکی ابتدا ہوئی تھی اور یہ چین میں اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ہے۔ تفتان کی سرحد پر قائم قرنطینہ میں ناکافی سہولیات کی وجہ سے جہاں یہ اس وبا کو روکنے میں خاص مددگار ثابت نہیں ہو سکا وہیں وہاں ایک ساتھ رکھے گئے زائرین کے ایک دوسرے کو یہ وائرس منتقل کرنے کے خدشات بھی موجود ہیں۔کورونا وائرس کی شدت کے پیش نظر سندھ حکومت نے صوبہ لاک ڈائون کردیا ہے، صرف خوراک و ادویات کی دکانیں کھلیں گی، سرکاری دفاتر، شاپنگ مالز، بازار، اسپتالوں کی او پی ڈیز 15روز کیلئے بند کردی گئیں، انٹر سٹی ٹرانسپورٹ بھی نہیں چلے گی، شہر بھر کے ریستورانوں میں بیٹھ کر کھانے پر پابندی ہوگی تاہم کھانا لے جانا کی اجازت ہوگی۔سندھ حکومت نے کورونا سے نمٹنے کیلئے 3 ارب کا امدادی فنڈ بھی قائم کردیا ہے جس میں وزیراعلیٰ سندھ نے ریلیف فنڈ سے ایک ارب روپے ٹرانسفر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ فنڈ میں صوبائی ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی ہوگی۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ لوگ گھروں تک محدود رہیں، وائرس پھیل گیا تو اسپتال کم پڑ جائیں گے جبکہ صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ نے کہا کہ وائرس سے بچانے کیلئے کرفیو کی طرف جایا جاسکتا ہے مگر ابھی ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔بعض حلقے اس حوالے سے کرفیو سے بھی آگے بڑھ کر ملک میں مارشل لاء لگنے کی بات بھی کررہے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے قوم سے خطاب میں قوم کو امید دلانے کے بجائے ڈرانے سے کام لیتے ہوئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔قوم آج کل آگے کنواں اور پیچھے کھائی والی کیفیت سے گزر رہی ہے۔ یعنی اگر موجودہ حالات میں کوروناسے بچ بھی گئے تو بیروزگاری اور بھوک کے ہاتھوں موت یقینی دکھائی دے رہی ہے۔ ہم اگر اپنی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی قوم کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی طور پر بہتریں قوت مدافعت سے نوازا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی آبادی کی اکثریت آلودہ پانی استعمال کرنے کے باوجود زندہ ہے، آب و ہوا میں زہریلی مادوں کی آمیزش کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہونے کے باوجود لوگ بڑی تعداد میں موت کا شکار نہیں ہوتے۔ صحت کی سہولیات ناپید ہیں، کتے کے کاٹے کی ویکسین تک دستیاب نہیں ہوتی ہے اور بچہ ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر جان دے دیتا ہے لیکن اس کے باوجود ہماری آبادی میں کوئی بھی بیماری وبا کی شکل میں نہیں پھیلتی ہے۔ کورونا بلاشبہ دنیا کے سامنے ایک بہت بڑے خطرے کی شکل میں سامنے آیا ہے تاہم اس وبا سے پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا ہوا تھا۔ اس وقت جو صورتحال ہے وہ بھی ہمارے ارباب اختیار کی نااہلی کی وجہ سے زیادہ سنگین ہو رہی ہے۔ اگر بروقت درست اقدامات کر لیے جاتے تو شاید یہ صورتحال نہیں ہو تی۔ اس وقت بھی جس انداز میں ’’لاک ڈائون‘‘ کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں جو خطرات منڈلانے لگے ہیں وہ کورونا سے زیادہ خوفناک ہیں۔ملک کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ان حالات میں جس انداز میں حکومت لاک ڈائون کررہی ہے اس سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ لوگ کورونا کے بجائے بھوک اور افلاس سے مرنے لگیں گے۔عوام کی اکثریت روزانہ کی بنیاد پر محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں موجودہ صورتحال میں غربت اپنی آخری حدوں کوچھو رہی ہے۔حکومت نے اگر اس جانب توجہ نہیں دی تو بہت بڑے سانحے کے خطرے کو رد نہیں کیا جاسکتا۔کورونا وائرس انسانیت کا مشترکہ دشمن ہے اپنے بچائو کے لئے اس سے ڈرنا نہیں بلکہ لڑنا ہے۔ خوفزدہ ہونے کی بجائے ضروری ہے کہ لوگ حفاظتی تدابیر پر سختی سے عمل کریں۔حکومت معمولات زندگی کو معمول پر رکھنے اور نچلے طبقے کی مشکلات کو کم کرنے پر اپنی توجہ مبذول رکھے۔ اس نازک موقع پر قرضوں کے مزید حصول کی کوششوں سے اجتناب برتا جائے۔ کورونا سے بچانے کے نام پر قوم کو اندھی گلی میں دھکیلنے سے گریز کیاجائے۔

ای پیپر دی نیشن