بھارت اب آزاد جمہوری ملک نہیں رہا 

Mar 20, 2021

بھارت اب آزاد جمہوری ملک نہیں رہا 
بھارت اب آزاد جمہوری ملک نہیں رہا 

 شہزاد احمد چوہدری
sehota62@hotmail.com

بھارتی حکومت پہلے سے ہی متعدد شدید ترین بحرانوں کی زد میں ہے۔ جن میں اس وقت سرفہرست بھارتی کسانوں کی  احتجاجی تحریک دارلحکومت دہلی کا گھیراؤ اوردیگر کئی عوامل کارفرما ہیں ۔ حالات اس قدر سنگین ہیں کہ برطانوی دارالعوام میں متعدد سیاسی پارٹیوں کے ممبران کی جانب سے بھی ان ہڑتالی کسانوں کے مسئلہ پر تفصیلی غور خوض کیا گیا  ہے۔ جس پر بھارتی حکومت نے اسے اپنے ملک کا داخلی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس پر برطانوی حکومت سے شدید احتجاج بھی کیا  ہے۔ مگر بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی،  بھارتی انتہا پسند حکمرانوں کو اپنے غیر انسانی  اقدامات پر اسے ناصرف بھارتی حزب اختلاف کے رہنماؤں کی تنقید کا سامنا ہے،  بلکہ عالمی رائے عامہ اور ممتاز عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کی جانب سے  بھی اسے  ہزیمت، شدید تنقید اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حال ہی میں دنیا بھر میں آزاد جمہوریتوں پر نظر رکھنے دو معروف اداروں کی جانب سے بھی بھارتی انتہا پسند حکمرانوں کے کے اقدامات پر کھل کر تنقید کی جا رہی ہے کہ بھارت اب آزاد ریاست کے تصور سے قدرے دور ہو چکاہے۔بلکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بدقسمتی سے بھارت کو آزاد جمہوری ریاست کی بجائے تیزی سے المناک حد تک آمریت کی جانب گامزن کرچکی ہے۔
امریکی حکومت کی امداد سے چلنے والے ایک معروف ادارے  'فریڈم ہاؤس' نے نریندر مودی کے دور حکومت میں انسانی حقوق کی بدترین صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے، اپنی سالانہ رپورٹ میں بھارتی آزادی اور جمہوریت کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اسے "جزوی طور پر آزاد" ملک کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ تقریبا 25 برسوں میں پہلی بار بھارت کی درجہ بندی میں یہ تنزلی دیکھی گئی ہے۔ جس پر بھارت نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا۔وہاں اب سویڈن کے معروف ادارے 'وی۔ ڈیم' نے بھی بھارتی جمہوریت سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں بھارت کو ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت'' کے بجائے اس کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اب اسے محض ایک ''انتخابی جمہوریت'' ہی  قرار دے دیا ہے۔ اس ممتاز اور غیر جانبدار ادارے نے اپنی رپورٹ میں بھارتی حکومت کی جانب سے،''میڈیا پر پابندی، بغاوت اور ہتک عزت جیسے قوانین کے بے جا استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ مودی سرکار نے حقیقت میں سیکولر ازم کا تصور تک دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ اسی طرح سے نریندر مودی کے اقتدار کی تصویر کشی کرتے ہوئے ایک ممتاز عالمی جریدے دی اکانومسٹ نے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ بھارتی حکومت  نے  اپنے  چہرے سے خود ہی جمہوریت کا مصنوعی نقاب نوچ ڈالا ہے۔ اس میگزین نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ بھارت کے تمام ادارے بشمول نام نہاد عدلیہ بھی اب بھارت کی ریاست کو یک جماعتی تسلط میں لا نے کیلئے  آلہ کار ثابت ہو رہے ہیں۔ بھارتی عدالتیں اب مودی سرکار کی کٹھ پتلی بن چکی ہیں۔ جہاں  ہزاروں مقدمات زیر التوا اور بے گناہ لوگ برس ہا برس سے انصاف کے منتظر ہیں اور دنیا کی یہ سب سے بڑی جمہوریت اب آمرانہ اور ظالمانہ مستقبل کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ جہاں صرف طاقت اور طاقتور کا ہی بول بالا ہے۔ جریدے نے مزید لکھا ہے کہ مودی سرکار نے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ حکمرانی مسلط کر رکھی ہے۔جہاں اس دوران ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا، لیکن بھارتی عدلیہ اس پر مسلسل خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔
 بھارتی شہریت کے متعلقہ قوانین میں ترمیم کر کے مسلمانوں کو دہشتگردی کے الزام میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جبکہ آزادی اظہار پر بھی غاصبانہ قانون بنائے گئے ہیں۔دہلی پولیس نے حکومتی پشت پناہی میں شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 کے خلاف مظاہروں کے دوران ہزاروں مسلمانوں پر شدید مظالم ڈھائے گئے تھے۔ جس پر بھارتی عدلیہ نے صرف اس تماشا کو قریب سے دیکھا، مگر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی گئی۔اس طرح عدلیہ کی جانب سے متنازعہ سی اے اے 2019ء قوانین کے خلاف 140 سے زائد پٹیشنز کی سماعت تاحال مسلسل التوا ء کا شکار ہے۔ جہاں ان زیر التوا مقدمات میں اکثریت مسلمانوں اور دیگر اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھتی ہے۔ان زیر التوا کیسوں میں سے ایک چوتھائی وہ مقدمات جن میں ایک سال سے زائد عرصے سے بیگناہ لوگ مسلسل جیلوں میں قید و بند کا شکار ہیں۔ اس طرح عام بھارتی شہریوں کی جانب سے معلومات کے حصول کے حق سے متعلق قوانین میں ترامیم سے بھی ان کا حق چھینا جاچکا ہے، جو کہ مودی حکومت کے غاصبانہ عزائم کا ایک اور ثبوت ہے۔ جریدے کے مطابق بھارتی آئین میں سیکولرازم کی شق کا مطلب ہے کہ ہندوستان میں تمام مذاہب کو ہر لحاظ سے مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔لیکن جب بھارت میں مذہبی حوالے سے اس قدر عدم مساوات موجود ہو تو ریاست کا مذہبی امور میں غیر جانبدار رہنا ہی ممکن ہی نہیں رہتا۔ جب مذہبی اقلیتوں اور شماریات میں اس قدر عدم مساوات پائی جاتی ہو تو ان حالات میں بھارت میں بسنے والی  مذہبی اکثریت کا ریاستی عناصر میں اثر و رسوخ اورمذہبی تعصب کا پایا جانا ایک معمولی سی بات ہے۔تقسیم کے وقت  1947ء کے موقع پر ہندوستان میںمسلم لیگ کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مقبولیت کی بڑی وجہ یہی ہندوتوا  سوچ تھی۔  ہندوستان میں آر ایس ایس اور متعصبانہ ہندو انتہا پسند جماعتوں کی یہی   سرگرمیاں مسلمانوں کیلئے وبال جان بن گئی  تھیں۔
اسی طرح ایک ممتاز امریکی ادارے نے ’جمہوریت محاصرے میں‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی ’فریڈم ہاؤس‘کی سالانہ ’فریڈم ان دا ورلڈ 2021‘ رپورٹ میں کہا ہے بھارت میںسال 2014ء میں مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے عام شہریوں کے شہری حقوق بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور اس صورت حال میں سال 2019ء میں مودی سرکار کی جانب سے اکثریت کے ساتھ دوسری بار کامیابی حاصل کرنے کے بعد ان کاروائیوں میں انتہائی تیزی آئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بھارت میں ’انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں پر بھی دباؤ میں شدید اضافہ ہوا ہے، اب بھارت میں دانشوروں اور صحافیوں کو دھمکایا جا رہا ہے اور مسلمانوں کے خلاف تعصب پر مبنی نفرت انگیز حملے کیے جا رہے ہیں۔ جن میں مشتعل ہجوم کی جانب سے  تشدداور قتل بھی شامل ہے۔
اس سالانہ رپورٹ میں دنیا بھر کے ممالک کی سیاسی حقوق اور شہری آزادیوں کی بنیاد پر درجہ بندی کی جاتی ہے اور ہر ملک کو تین درجہ بندیوں میں سے ایک میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان تین درجہ بندیوں میں آزاد، قدرے آزاد اور آزاد نہیں کے درجے شامل ہیں۔جبکہ اس فہرست میں کل سکور 100 پوائنٹس کا ہے جو کہ ’مکمل آزاد‘ ملک کو دیا جاتا ہے۔ فہرست میں بھارت کا سکور گذشتہ سال 71 سے کم ہو کر رواں سال 67 ہو گیا ہے، جبکہ 211 ممالک اور علاقوں میں بھارت کا درجہ 83 سے گر کر 88 ہو گیا ہے۔فن لینڈ، ناروے اور سویڈن کو آزاد ترین ممالک کا درجہ دیا گیا ہے اور ان کا سکور 100 ہے۔ جبکہ تبت اور شام کو صرف ایک سکور دیا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کا ’آزاد ممالک کی کلیدی فہرست سے نیچے آنا‘ دنیا بھر میں جمہوری معیارات کے لیے انتہائی برے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔'فریڈم ہاؤس' کی سالانہ رپورٹ میں دنیا بھر کے ممالک کی سیاسی حقوق اور شہری آزادیوں کی بنیاد پر درجہ بندی کی جاتی ہے اور ہر ملک کو تین درجہ بندیوں میں سے ایک میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان تین درجہ بندیوں میں آزاد، قدرے آزاد اور آزاد نہیں کے درجے  کا تعین شامل ہے۔
گذشتہ سال بھارتی حکومت نے تعصب پر مبنی قوانین کی مخالفت کرنے والے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ کیا تھا اور وہیں اس موقع پر درجنوں صحافیوں کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ جنہوں نے اس موقع پر حکومت کی کورونا وباء سے متعلق اپنائی گئی حکمت عملی پر تنقیدکی تھی۔بھارت کے سکور میں کمی کی ایک وجہ اس دباؤ کی وجہ سے آئی ہے جہاں عدالتی آزادی بھی متاثر ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ آزادی اظہار کو روکنے کے لیے بغاوت کے قوانین، کورونا لاک ڈاون کے دوران میں مہاجرین کا بحران، انٹرنیٹ پر آزادی میں تیزی سے آتی کمی اور سال 1992 میں بابری مسجد کو منہدم کرنے والوں کی بریت بھی ان وجوہات میں شامل ہے۔رپورٹ میں ’بھارتی کشمیر‘ کو انفرادی طور پر ’جزوی آزاد‘ کا درجہ دیتے ہوئے اس کا سکور 28 سے کم کر کے 27 کر دیا گیا ہے۔ 
اسی طرح ایک معروف عالمی تنظیم یونیورسل ہیومین رائٹس کونسل سمیت دنیا کے تقریبا تمام عالمی انسانی حقوق کے اداروں نے سب سے بڑی جمہوریت کے نام نہاد دعویدار بھارت کے سیکولرازم کو بے نقاب کردیا ہے۔ کیونکہ بھارت انسانی حقوق کی بدترین پامالی کرنے والا بدترین ملک بن چکا ہے۔ اسی طرح بھارتی میڈیا میں بھی ہندو انتہاپسندی بڑھتی جا رہی ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق بین الاقوامی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ اب بھارت کی نام نہاد جمہوریت میں سیکولرازم نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔بھارت کی جانب سے ایک ابھرتی ہوئی معاشی طاقت بننے کے تصور کو بھی انسانی حقوق کے  لحاظ سے انتہائی دھندلا دیا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے حالات مساوات کے اصولوں کے بالکل برعکس ہیں۔جہاں شہریت کے متنازعہ قانون کے نفاذ سے یہ معاشرتی تفریق مزید بڑھ گئی۔ کیونکہ یہ قانون مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے تارکین وطن کے بنیادی حقوق غصب کرتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف پر ہجوم جگہوں پر مار کٹائی اور تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں، اور گرجا گھروں کو جلا کر مندروں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔اس امریکی رپورٹ میں تبلیغی جماعت کے بارے میں منفی سوچ پھیلانے اور ان کی گرفتاری کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ جس میں دہلی میں ہونے والے ایک تبلیغی اجتماع کا تعلق کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز سے جوڑا گیا تھا۔ بعد ازیں گرفتار کیے گئے تمام 36 افراد کو عدالت کی جانب سے بری کر دیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں بھارت میں شادی کرنے کے لئے تبدیلی مذہب کو ’لو جہاد‘ کے نام سے مذہب کی تبدیلی کی مخالف پر مبنی قانون کی منظوری کی بھی نشاندہی کی گئی۔ جو کہ بھارتی ریاست اترپردیش میں منظور کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت بین المذاہب شادیوں کے ضمن میںمذہب کی تبدیلی کوزبردستی قرار دے کر ریاست اسے روکنے کا اختیار استعمال کر سکتی  ہے۔ رپورٹ میں اس قانون کے تحت کئی مسلمان مردوں کی گرفتاری کا بھی ذکر ہے۔ 
سویڈن کے ایک معروف غیر جانبدار ادارے کی بھارت بارے رپورٹ کی اشاعت پر  حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی کے سرکردہ رہنما راہول گاندھی نے بھی اس رپورٹ کا حوالہ دیتے بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت کے متعلق ایک ٹویٹ کیا تھا، جس میں اعتراف کیا گیا تھا کہ  ''بھارت اب جمہوری ملک نہیں رہا۔' سویڈن کے معروف ادارے 'وی – ڈیم' نے بھارتی جمہوریت سے متعلق اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بھارت کو، ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت'' کے بجائے اس کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اب اسے محض، ''انتخابی جمہوریت'' قرار دیا ہے۔ ادارے نے اپنی رپورٹ میں بھارتی حکومت کی جانب سے، ''میڈیا پر پابندی، بغاوت اور ہتک عزت جیسے قوانین کے کثرت سے بے جا استعمال کا حوالہ دیا ہے۔اس غیر جانبدار ادارے نے  بھارت  کوآمریت پسند  اور  پڑوسی ملک بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی بدتر  قرار  دیاہے۔  مثال کے طور پر جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی ہے اس وقت سے ساٹھ ہزار افراد کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا جا چکا ہے اور اس سلسلے میں بیشتر ایسے لوگوں کو ملزم قرار دیا گیا ہے جو حکمراں جماعت پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ رپورٹ میں غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے لیے متنازع قانون یو اے پی اے کا بھی خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ جس کے متعلق کہا گیا کہ اسے صحافیوں اور سول سوسائٹی کو خاموش کرانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جبکہ بھارتی حکومت، آئین میںسیکولر اقدارکی مسلسل خلاف ورزی کا ارتکاب کر رہی ہے۔ اس رپورٹ میں شہریت سے متعلق بھارت کے نئے قانون سی اے اے کا بھی خاص طور پر ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ حکومت اس کے خلاف مظاہر ہ کرنے والے طلبا اور یونیورسٹی کے اساتذہ کو سزا دینے کے لیے بھی یو اے پی اے کا استعمال کر رہی ہے۔ دوسری طرف سخت گیر ہندو نظریاتی اداروں اور ان کی اتحادی تنظیموں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ بی جے پی نے سول سوسائٹی تنظیموں پر قدغن لگانے اور انہیں محدود کرنے کے لیے 'فارن کانٹریبیوشن ریگولیشن ایکٹ' (ایف سی آر اے) کا خوب استعمال کیا ہے۔ 
سویڈن کے معروف ادارے وی- ڈیم نے اپنی رپورٹ میں بھارت کے حوالے سے کہا ہے، ''بھارت بھی اب دیگر پڑوسی ملکوں کی  طرح ہی آمریت پسند ہوچکا ہے اور اس کی صورت پڑوسی ملک بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی بدتر ہے۔سویڈن کی اس تنظیم نے عالمی سطح پر جمہوریت کی صورت سے متعلق جو رپورٹ جاری کی اس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی ہے لبرل جمہوری اقدار میں کمی آئی ہے۔
دوسری طرف برطانوی پارلیمان کے ارکان نے بھی بھارت میں ’’کسانوں کے تحفظ‘‘ اور’’ پریس کی آزادی‘‘ کے موضوع پر بحث کی تھی۔ اس میں لیبر پارٹی، کنزرویٹو، لبرل ڈیموکریٹک پارٹی اور اسکاٹش نیشنل پارٹی جیسی سیاسی جماعتوں سے وابستہ ارکان نے بھارت میں کسانوں کے تحفظ اور پریس کی آزادی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ برطانوی اراکین پارلیمان  نے بحث کے دوران یہ بات تسلیم بھی کی کہ بھارتی حکومت کی زرعی اصلاحات بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ تاہم ان کا اصرار اس بات پر تھا کہ کسانوں کے احتجاج کے ساتھ جو رویہ بھارتی حکومت نے اپنا رکھا ہے، وہ انتہائی قابل افسوس ہے۔ واضح رہے کہ اس بحث میں تقریباً 20 برطانوی ارکان پارلیمان نے شرکت کی تھی۔ جبکہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات  کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں،’’ جہاں وہ اپنی تشویش ان تک پہنچا دیں گے۔‘‘ واضح رہے کہ بورس جانسن جلد ہی بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں۔ جسے قبل ازیں بھارتی کسانوں کی جانب سے دہلی کے محاصرے کی بنا پر برطانوی حکومت کی جانب سے موزوں وقت تک مؤخر کر دیا گیا تھا۔

مزیدخبریں